سر زمین عرب
پر اسلام کی آمد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کےحقوق دبانا اور ان پرظلم و
ستم کرنا بھی عام تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں کےساتھ ہونے والے برے سلوک کی
مذمّت کی بلکہ ان سے نرمی و شفقت کا برتاؤ کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے
کا حکم دیا ہے۔
یتیم
کا معنی: (لفظاً)
تنہا رہ جانے والا یا ایسا شخص جس کی طرف سے غفلت برتی جائے۔
یتیم و نادار
اور لاوارث بچوں کے بھی معاشرتی حقوق ہیں، ان کی مکمل کفالت ان کے حقوق کی پاسداری
ہے اور اس سے منہ موڑ لینا ان کے حقوق کی پامالی ہے۔ یتیم اس نابالغ بچے کو کہا
جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ شفقت پدری سے محروم
ہو گیا ہو۔ (درمختار مع رد المحتار، 10/416)
چنانچہ اللہ تعالیٰ
نے ارشادفرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30،
الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔
دور جاہلیت
میں یتیموں کے بارے میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان کے مالوں پر قبضہ کر
لیتے،ان پر دباؤ ڈالتے اور ان کے حقوق کے معاملے میں ان کے ساتھ زیادتی کیا کرتے
تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! آپ
کسی بھی صورت یتیم پر سختی نہ فرمائیے گا۔ (خازن، 4 / 387)
مسلمانوں کے
گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا
جاتاہو اور مسلمانوں کے گھروں میں سب سے براگھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے
ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حديث:3679)
حدیث پاک میں
ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت میں داخل کرے گا اور نہ
ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔
(مستدرک،2/338، حدیث:2307)
حضرت بریدہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک قوم اپنی
قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی:
یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس
فرمان کو نہیں دیکھا، ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے
ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں
جائیں گے۔ (کنز العمال، 2 / 9، جزء: 4 ،
حدیث: 9279)
رسول اللہ نے
فرمایا: اے اللہ! میں دو ضعیفوں کا حق (مارنا)
حرام کرتا ہوں یتیم کا اور عورت کا۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)
ایک بزرگ کا
بیان ہے کہ میں پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم کو دیکھا تو میں نے اس سے
اتنا زیادہ عزت و محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں
کرتا ہوگا۔ رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فرشتے بڑے برے
طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم درمیان
میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں رب کریم سے اس کے بارے میں گفتگو
کرلوں، مگر فرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک ندا سنائی دی: اسے چھوڑ دو! ہم نے یتیم
پر رحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی، اس دن
سےہی میں یتیموں سے انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 231) معلوم
ہوا کہ یتیم سے کیا گیا حسن سلوک دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔
آج اگر ہم
یتیموں کے دکھ درد کو ہلکا کرنے، ان کی زندگیوں پہ چھائی تاریکیاں مٹانے اور ان کے
مرجھائے اور غم زدہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کریم
ہماری دنیا و آخرت کو روشن فرمائے گا۔ اللہ پاک ہمیں یتیموں کا سہارا بننے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ