نمازِ عشا کے بارے میں ربّ کریم نے قرآن میں اور  رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں کئی فضائل بیان فرمائے ہیں۔قال اللہ :ترجمہ: اللہ کی تسبیح کرو، جس وقت میں شام ہو(نماز ِمغرب و عشا) اور جس وقت صبح ہو( نماز ِفجر) اور اسی کی حمد ہے،آسمانوں اور زمین میں اور پچھلے پہر کو(نماز عصر) اور جب تمہیں دن ڈھلے(نماز ظہر)۔(پارہ 21،الروم:18)عشا کے لغوی اور اصطلاحی معنی:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، ص114)سب سے پہلے نمازِ عشا حضور اکرم علیہ السلام نے ادا فرمائی:ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے نمازِ عشا ادا فرمائی، ہمارے سرکار علیہ السلام پر تہجد کی نماز بھی فرض تھی، نمازِ عشا حضور علیہ السلام کی امت کی خصوصیت ہے اور نمازِ پنجگانہ یعنی پانچ وقت کی نمازیں بھی اور نمازِ تہجد کی فرضیت سرکارِ مدینہ علیہ السلام کی خصوصیت ہے۔ (فیضان نماز، ص30)عشا کی نماز، فضائل ووعید:1۔منافقوں پر نمازِ فجر و عشا بھاری ہیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے،اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔شرح حدیث:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں(یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی ہیں)پس اس سے معلوم ہوا ! جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ 2۔منافقین عشا و فجرمیں آنے کی طاقت نہیں رکھتے:تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(فیضان نماز، ص111تا 112)3۔گویا ساری رات عبادت کی:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے، گویا کہ اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے، گویا کہ اس نے پوری رات قیام کیا۔(فیضان نماز، ص93)4۔فجر و عشا چالیس دن باجماعت پڑھنے کی عظیم الشان فضیلت:جو خوش نصیب مسلسل چالیس دن تک فجرو عشا باجماعت ادا کرتا ہے وہ جہنم اور منافقت سے آزاد کر دیا جاتا ہے، جیساکہ خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی،اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا،ایک نار(یعنی آگ) سے،دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔5۔دوزخ سے آزادی:امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(فیضان نماز، ص97) نمازِ عشا سے پہلے سونا: حضور اکرم علیہ السلام فرماتے ہیں:جو نمازِ عشاسے پہلے سوئے، اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔عشا سے قبل سونا مکروہ ہے: بہارِ شریعت میں ہے:دن کے ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔(بہار شریعت،ص445)

تو پانچوں نمازوں کی پابند کر دے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے