اللہ
پاک نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جس نے انہیں ادا کیا اور ان کے حق کو
معمولی جانتے ہوئے ان میں سے کسی کو ضائع نہ کیا تو اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر اس کے
لئے وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کر دے اور جس نے انہیں ادا نہ کیا، اس کے لئے
اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر عہد نہیں، چاہے اسے عذاب دے، چاہے جنت میں داخل فرمائے۔(سنن
ابی داؤد، کتاب الوتر، باب فی من لم یوتر،
جلد 2، صفحہ 89، حدیث1420)ہمارے اور منافقین کے درمیان عشا
و فجر کی(جماعت
میں)
حاضری کا فرق ہے، منافقین کو ان دونوں نمازوں میں حاضری کی طاقت نہیں۔(المؤطا
الامام مالک، کتاب صلاۃ الجاعۃ،باب ماجاء فی العتمۃ والصبح، جلد 1، صفحہ 330، حدیث298)عشا
کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد
ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو عشا کہا جاتا ہے۔
تو پانچوں نمازوں کی
پابند کردے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی
بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو
ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی
بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس)کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن
ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)حدیثِ مبارکہ کی شرح:حضرت مفتی
احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ
اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ منافق صرف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتا ہے اور وقتوں میں تو
خیر جیسے جیسے پڑھ لیتے ہیں، مگر عشا کے
وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذت انہیں مست کر دیتی ہے، اخلاص اور عشق مشکلوں کو حل کرتے ہیں، وہ ان میں
سے نہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم
ہوتی ہیں)پس
اس سے معلوم ہوا ! جو مسلمان ان دونوں نمازوں میں سستی کرے، وہ منافقوں کے سے کام
کرتا ہے۔(مراۃ
المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے
مروی ہے،سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا
اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں
رکھتے۔ شرحِ حدیث:حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ
اللہ علیہ
لکھتے ہیں:اس حدیث میں بیان کردہ منافق سے مراد (دورِ رسالت کے بدترین
کفار نہیں ہیں، جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے، مگر دل سے کافر تھے،
بلکہ یہاں مراد)
منافق عملی ہے۔(
فیض القدیر، جلد 1، صفحہ 84، 85)حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشادفرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے، اللہ
پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع،جلد 7، صفحہ289،حدیث23192)امیر
المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی
اللہ عنہ
اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا، جس میں یہ بھی ہے کہ جو عشا سے پہلے سو جائے، خدا
کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں، جو سو جائے اس کی
آنکھیں نہ سوئیں۔(مؤطا
امام مالک، جلد 1، صفحہ 35، حدیث 6)امیر المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے: جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے، تو گویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا
اور جو فجر جماعت سے پڑھے، تو گویا وہ ساری رات عبادت میں کھڑا رہا۔(صحیح
مسلم، کتاب المساجد۔۔ الخ،باب صلاۃ العشا۔۔الخ، صفحہ 329، حدیث265)ابنِ
ماجہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
فرماتے ہیں:جو مسجد میں باجماعت چالیس راتیں نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ
ہونے پائے،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ338)
سب نمازوں میں منافقین پر گراں نماز ِفجر اور عشا ہے۔(طبرانی)محترم
اسلامی بہنو!نماز قضا کر دینا سخت گناہ ہے، لہٰذا جو اسلامی بہن نماز قضا کر بیٹھے، وہ سچے دل سے توبہ بھی کرے
اور جو اسلامی بہن نہ وقت پر نماز پڑھے اور نہ قضا ہو جانے پر ادا کرے، وہ تو
سراسر خسارے میں ہے، کیونکہ اس کی نمازیں کے ذمہ قرض ہیں، ادا کرے گی تو چھٹکارہ
پائے گی، ورنہ عذابِ الٰہی میں پھنس جائے گی۔یقیناً عافیت اسی میں ہے کہ نماز کا
وقت ہوجائے تو تمام کام کاج چھوڑ کر نماز ادا کرنی چاہئے، قضا نمازوں کو بھی ادا
کرنے کی کوئی ترکیب بنانی چاہئے، اس سلسلےمیں امیرِ اہلِ سنت دامت
برکاتہم العالیہ
کا رسالہ قضانمازوں کا طریقہ کا مطالعہ فرما لیجئے، ان شاءاللہ معلومات کا بے بہا
خزانہ آپ کے ہاتھ آئےگا۔قضا نمازوں کو ادا کرنے کی نیت ابھی سے فرما لیجئے، کیوں
کہ نیت صاف منزل آسان۔حدیثِ پاک میں ہے:نیۃُ المْؤمِنِ خَیْر مِّنْ عَمَلِہ یعنی
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔