اللّہ تعالی
نے بنی نوع انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ
الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) ترجمہ کنزالایمان: اور
میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی
لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ۔ (الذّٰریٰت: 56)
اور اس نے
زندگی اور موت کو بھی اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھے کہ اس کے بندوں میں سے کون زیادہ
اچھے اعمال کرتا ہے اور کون اس کی نافرمانی کرتا ہے ؟ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ
اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ(۲) ترجمہ کنزالایمان: وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں
کس کا کام زیادہ اچھا ہے اور وہی عزّت والا بخشش والا ہے۔(پارہ :29 سورۃ الملک ،آیت:2)
اب بندوں کے
اعمال کا وزن کرنے کے لیے بروز قیامت
جو آلہ استعمال ہو گا اسے مِیزَان کہتے ہیں ۔
جی ہاں ، آپ
نے صحیح پڑھا کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا ۔ اس کا حق ہونا قرآن کریم ، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک احادیث اور اجماع سے ثابت ہے۔
قرآن کریم سے میزان کا ثبوت: قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ
ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8) اس آیت میں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں
ارشاد فرما دیا کہ حساب و کتاب حق ہے اور ضرور ہوگا ۔
میزان کیسا ہوگا : روز محشر جو میزان قائم ہوگا اس کے دنیاوی میزان کی طرح
دو پلڑے ہونگے ایک نیکیوں والا ہوگا اور دوسرا گناہوں والا ہوگا ۔ جس کا نیکیوں
والا پلڑا بھاری ہوگا وہ عیش و رضامندی والی زندگی میں ہوگا اور جس کا نیکیوں والا
پلڑا گناہوں والے پلڑے سے ہلکا ہوگا اس کا ٹھکانہ آگ ہوگا جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمہ کنز
العرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے ۔وہ تو پسندیدہ زندگی میں ہوگا۔اور بہرحال جس کے ترازو ہلکے پڑیں گے۔تو
اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ ایک شعلے مارتی آگ
ہے۔ (پ30، القارعہ: 6-11)
مگر
یہ بات یاد رہے اعمال کے حساب کتاب کے بعد بندے کی نیکیاں اگرچہ کم ہوں مگر اللّہ
تعالی چاہے تو اسے بخش سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس نے شرک نہ کیا ہو ۔ جیسا کہ
اس نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ
اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک اللہ اس بات کو نہیں
بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما
دیتا ہ ۔ (پ5، النساء: 48)
اعمال کے وزن کیسے تُلیں گے :
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
حساب و کتاب میں کامیاب ہونے والوں کی نشانی: بروز قیامت حساب سے پہلے ہر شخص کو اس کے نامہ اعمال
کا دفتر دیا جائے گا جس میں اس شخص کے پیدائش سے موت تک کہ اعمال لکھے ہوئے ہونگے۔
تو جس کو وہ نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں کامیاب ہوجائے
گا اور جسے الٹے ہاتھ میں ملے گا وہ حساب و کتاب میں ناکام ہوجائے گا ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
ترجمۂ
کنز العرفان: تو بہر حال جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔اور وہ اپنے گھر
والوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا اور رہا
وہ جسے اس کا نامہ ٔاعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔تووہ عنقریب موت
مانگے گا۔ اور وہ بھڑکتی ا ٓگ میں داخل ہو گا۔ (پ30، الانشقاق:7 تا 12)
اللّہ تعالی
ہمیں بلاحساب و کتاب جنت میں داخلہ عطا فرمائے ۔آمین
قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان کو ہدایت دینا
ہے۔ اسی مقصد کے تحت قرآن نے "میزان" یعنی ترازو یا معیارِ عدل کا تصور
دیا ہے۔ "میزان" کا قرآنی بیان نہ صرف مادی معاملات میں انصاف کے قیام کی
تاکید کرتا ہے بلکہ روحانی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں میں
توازن اور انصاف کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
میزان
کا لغوی و اصطلاحی مفہوم: عربی
زبان میں "میزان" کا مطلب ترازو یا پیمانہ ہے جس کے ذریعے چیزوں کا وزن
اور توازن معلوم کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر میزان کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا
الْمِیْزَانَ(۹) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو اور
انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (الرحمٰن: 7تا 9)
میزان
اور عدل کا تعلق:میزان کا تعلق
براہِ راست عدل سے ہے۔ قرآن کا پیغام ہے کہ دنیا میں ہر انسان، ہر معاشرہ اور ہر
ادارہ اپنے معاملات میں عدل و انصاف کو ملحوظِ خاطر رکھے۔ میزان کا مقصد ہی یہ ہے
کہ نہ کسی کا حق مارا جائے، نہ کسی پر ظلم ہو اور نہ ہی کسی کو اس کے حق سے کم دیا
جائے۔
انسانی
زندگی میں میزان کی اہمیت: انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، میزان ہر شعبے میں توازن اور
اعتدال کا مطالبہ کرتا ہے۔ عبادات میں توازن، رزق کے معاملے میں اعتدال، معاشرتی
تعلقات میں انصاف، کاروبار میں ایمانداری، غصہ، خوشی، محبت، نفرت، ہر جذباتی رویے
میں توازن ہی میزان کی عملی صورت ہے۔ قرآن
فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ
بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ
الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ
تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) ترجمہ
کنزالایمان: بےشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور
رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتاہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو ۔ (پارہ
14، النمل: 90)
یہی میزان کی روح ہے کہ ہر معاملے میں
اعتدال، انصاف اور توازن قائم رکھا جائے۔
میزان
کا تعلق آخرت سے:قرآن نے یہ حقیقت
بھی بیان کی ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن میزان پر کیا جائے گا۔ اس میزان پر
صرف اعمال کا ظاہری وزن نہیں بلکہ ان کا اخلاص، نیت اور تاثیر بھی تولا جائے گا۔ ارشاد
ہے: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ
الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ
مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے
قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے
برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17،
الانبیاء:47)
میزان کے حق
ہونے پر قرآن مجید میں کثیر آیات وارد ہوئی ہیں اور کثیر احادیث صحیحہ
سے ثابت ہے کہ بروز قیامت میزان قائم کیا جائےگا۔ جس پر لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے اور کثیر اقوالِ علما سے ثابت ہے کہ میزان حق ہے اس پر ایمان لانا ضروری
ہے کیونکہ یہ نص قرآنی سے ثابت ہے اور اسکی کیفیت دنیا کے ترازو سے مختلف ہے دنیا
کے ترازو کا بھاری پلڑا نیچے آتا ہے اور
اس میزان کا پلڑا اوپر جائیگا اور ہلکا پلڑا نیچے آئے گا۔
قرآنی آیات سے
میزان کے ثبوت کے متعلق چند آیات پڑھیئے: اللہ تبارک وتعالی قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی
الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند
کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن: 7، 8)
اللہ تعالی نے
قرآن کریم کو انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے جس میں
زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اصول و ضوابط
موجود ہیں جن میں سے ایک اہم اصول میزان بھی ہے، قرآن پاک میں میزان کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان
میں چند آیات کا ترجمہ اور مختصر تفسیر ملاحظہ فرمائیں:
آیت
نمبر 1: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ
کنزالعرفان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی۔ کہ تولنے میں نا انصافی نہ کرو ۔(ا لرحمن، آیت: 7، 8)
تفسیر صراط الجنان: ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق
کے درمیان تمام معاملات میں ) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان
سے مراد وہ تمام آلات ہیں جن سے اَشیاء
کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات
اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت کے اس
حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَشیاء ناپنے
اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین دین کے معاملات میں عدل
قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی حق تَلفی نہ ہو۔( خازن، الرحمٰن،
تحت الآیۃ:7، 8 ج4، صحیح 209۔ مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ:7، 8، ص 1192 ،ملتقطاً)
آیت
نمبر 2: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی
لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ (پ8،الاعراف:8)
تفسیر
صراط الجنان: اس سے پہلی آیت میں قیامت کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا
جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال
کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے
میزان کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱)
آیت
نمبر 3 : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم قیامت کے دن عدل کے
ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ
ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(الانبیاء، آیت: 47)
تفسیر
صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے
ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے
معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے
کافی ہیں ۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶، جلالین،
الانبیاء، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۲۷۳، ملتقطاً)
ان آیات مبارکہ
سے میزان کی اہمیت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں آخرت کی تیاری کی
توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
حافظ سید محمد منیب عالم ( درجہ سابعہ جامعۃ المدينہ اپر مال روڈ لاھور ،پاکستان)
دنیا دار فانی ہے پر ہر شخص کا قیام دنیا میں
عارضی ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے بندہ دنیا میں جو اعمال کرتا ہے بروز محشر اس کا
وزن اور حساب ہو گا ۔
وزن
اور میزان کا معنى: کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن
کیا جائے اسے میزان کہتے ہے۔میزان عمل کا قرآن پاک میں کئی مقامات پر ذكر آیا ہے، الله پاک ارشاد
فرماتا ہے:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا
نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
اعمال کا وزن
کئے جانے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ قیامت
کے دن مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی ،اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے
جنت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور ا س کی تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا، کفار
کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)ترجمہ کنزالعرفان : پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی
وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
قیامت کے دن میزان
قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ
خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان
زیادتیوں کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف:8، 9)
اور حساب و
کتاب کا معاملہ نہایت سخت ہوگا اور عدل و انصاف کے ساتھ سب کے اعمال کا وزن ہو گا ، اس کا تذکرہ بھی قرآن مجید میں کیا گیا۔اللہ پاک کا ارشاد ہے :وَ نَضَعُ
الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ
شَیْــٴًـاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں
گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا ۔ (پ17، الانبیاء:47)
ارشاد فرمایا
کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے
جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے، قیامت کے ہولناک
مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ
ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے
گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا
جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے
گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے
کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔(تفسیر
صراط الجنان پارہ 17 سورہ انبیاء آیت نمبر 47)
قرآنی
آیات سے یہ ثابت ہے کہ میزان پر ایمان
لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت
اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری
عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
قبر و حشر کی آزمائشوں سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
محمد عاقب رضا (درجہ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان بغداد کورنگی کراچی ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات
امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور
جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔( تاج العروس، باب
النون، فصل الواو، 9 / 361 )
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :
وَالْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:اور اس دن تول
ضرور ہونی ہے۔(پ8،الاعراف:8)
قیامت کے دن
اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی
ہیں : (1) پہلی صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے
کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا
جائے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال
حسین جسموں کی صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے
جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ (3) تیسری
صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا
وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف،
تحت الآیۃ: 8، 5 / 202، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
عدل کا بھاری ہونا: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
جمہور مفسرین
کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے ۔ (خازن،
الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
میزان
پر عدل: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو ۔ (الرحمٰن:7، 8)
ایک قول یہ ہے
کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مخلوق کے درمیان تمام معاملات میں
) عدل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور ایک قول یہ ہے کہ میزان سے مراد وہ تمام آلات
ہیں جن سے اَشیاء کا وزن کیا جائے اور اُن کی مقداریں معلوم
ہوسکیں جیسے ترازو ،اَشیاء ناپنے کے آلات اور پیمانے وغیرہ۔اس صورت میں آیت
کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین
پر اَشیاء ناپنے اور تولنے کے آلات پیدا فرمائے اور اپنے بندوں پر لین
دین کے معاملات میں عدل قائم رکھنے اور برابر ی کرنے کے اَحکام نافذ
فرمائے تاکہ وہ ناپ تول میں نا انصافی نہ کریں اور کسی کی
حق تَلفی نہ ہو۔ ( خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، 4 / 209، مدارک،
الرحمٰن، تحت الآیۃ: 7-8، ص1192، ملتقطاً)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین
رکھیں :
(1)صحیح
اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس
میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی
یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن
معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور
نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی
نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان
کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
حافظ محمد حسین عطاری (درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ بغداد کورنگی ،پاکستان)
انسان کی یہ
چند سالہ دنیاوی زندگی محض آزمائش کا میدان ہے، اصل فیصلہ اُس دن ہوگا جس دن ہر
چھوٹے بڑے عمل کو تولا جائے گا۔ قیامت کا دن انصاف کا دن ہوگا، اور اُس دن کا سب
سے عظیم منظر "میزان" کا نصب ہونا ہے ۔ وہ الٰہی ترازو جو غلطی نہیں کرتا۔ زبانیں خاموش ہوں گی، ہاتھ اور پاؤں گواہی
دیں گے اور اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا
ہلکا ، وہ حسرتوں میں گم ہوگا۔ یہ میزان ربِّ
تعالی کے عدل کی نشانی ہے، میزان
کے متعلق قرآن مجید میں کئی آیت مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔(پ8،الاعراف:9)
اس آیت میں قیامت کے دن کا دوسرا حال یعنی میزان
پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
وزن
اور میزان کا معنی : وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل
کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس
آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن نہیں
کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
(1)فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) ترجمہ کنزالعرفان: توبہرحال جس کے ترازو بھاری ہوں گے۔ (القارعۃ: 6)
قیامت کا حال
ذکر کرنے کے بعد یہاں سے قیامت کے دن
مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں، کہ قیامت
کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں ہوگا اور جس
کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے ہلکے پڑیں
گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور تجھے کیا
معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (صراط الجنان)
(2) جبکہ کفار
کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا جیساکہ اللہ
تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ
کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف:105)
(3)قیامت کے
دن میزان قائم کیا جانا اور اعمال کا وزن ہونا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ-
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) وَ مَنْ
خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا
كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے
بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو
وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کوخسارے میں ڈالا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیتوں
پر ظلم کیا کرتے تھے۔(پ8،الاعراف:8، 9)
محمد ہارون عطاری (درجہ خامسہ مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
قرآن پاک اللہ تعالی کی کتاب ہے اور یہ ایک محفوظ کتاب ہے
کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے
خود لیا ہے اس کی ہر ہر آیت قطعی و یقینی
ہے تو جہاں قرآن پاک نے زندگی
کے ہر پہلو کی تربیت فرمائی ہے وہاں قرآن پاک نے آخرت کے احوال بھی تفصیلاً بیان کیے ہیں اور
ان احوال میں سے ایک میزان بھی ہے ۔
وزن
اور میزان کا معنی : وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار معلوم کرنا اور
عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں
کا وزن کیا جاتا ہے اسے میزان کہتے ہیں ۔
میزان
عمل حق ہے : حساب
و کتاب کی طرح بروز قیامت میزان بھی حق ہے یعنی دلائل سمعیہ قطعیہ سے ثابت ہے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (المعتمد علی المعتقد 333) قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم
عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن ۔ (پ17، الانبیاء:47)
ایک اور مقام
پر ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن
تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
میزان
عمل کی کیفیت : اس میزان کے دو پلڑے ہیں عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا
نورانی ہے جبکہ دوسرا تاریک (سیاہ) پلڑا عرش کی بائیں جانب ہے ۔ (الدرۃالفاخرہ فی کشف علوم الآخرۃ) فتاوی رضویہ
شریف میں ہے وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا تو
اوپر اٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ
الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ ترجمہ
کنزالایمان: اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اُسے بلند
کرتا ہے۔ (پ22،فاطر:10)
میزان
عمل کی وسعت: حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی
پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر تمام آسمانوں
اور زمینوں کا اس میں وزن کیا جائے تو وہ اس میں سما جائیں ، فرشتے اسے دیکھ کر
عرض کریں گے: اے ہمارے رب تو اس سے کس کو
تولے گا اللہ پاک ارشاد فرمائے گا اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا ، فرشتے عرض
کریں گے: تجھے پاقی ہے ہم یوں تیری عبادت
نہ کر سکے جیسا تیری عبادت کا حق تھا۔ (مستدرک،5/807،
حدیث:8778)
میزان
عمل کی کامیابی:
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے ۔ (پ30، القارعہ:
6-9)
ان
آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے
ترازو بھاری ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک
عمل زیادہ ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ
زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو
اس وجہ سے ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ
ہوگا اور تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (صراط الجنان)
میزان
پر بھاری اعمال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے تاجدار
رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو لفظ زبان پر آسان ہیں لیکن میزان میں بھاری ہیں اور رحمن کو محبوب ہیں، سبحان اللہ العظیم ، سبحان اللہ وبحمدہ۔(بخاری ،کتاب الدعوات ،باب فضل التسبیح ،220/4، الحدیث
: 6406)
حضرت عبداللہ بن
عباس سے روایت ہے تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ
قدرت میں میری جان ہے تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان
اور ان کے نیچے ہے یہ سب اگر تم لے آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور
کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔(معجم الکبیر
،196/12، الحدیث: 13024)
میزان کا لغوی
معنی ترازو یا وزن کرنے کا آلہ ہیں۔ میزان
کا معنی کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرف عام میں ترازو سے کسی چیز کے
تولنے کو کہتے ہیں۔
قیامت
کے دن اعمال کے وزن کرنے کی صورتیں: قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس
بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں :
(1) پہلی
صورت یہ کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں
اجسام پیدا فرمادے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ نیک اعمال حسین جسموں کی
صورت میں کر دیئے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دیئے جائیں گے اور ان
کا وزن کیا جائے گا۔
(3) تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نفس اعمال کا وزن
نہیں کیا جائے گا بلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 5 / 202،
خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 8، 2 / 78)
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان:
اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تفسیر صراطِ الجنان: اس سے پہلی آیت میں قیامت
کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا
دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ
رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹)
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰) نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا
نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراطِ الجنان: یہاں سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں،چنانچہ ان 6آیات کا خلاصہ یہ
ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری
ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں
ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے
ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور
تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔
قیامت کے دن میزان یعنی ترازو قائم ہونا قرآن وحدیث
سے ثابت ہے ۔
میزان
کے بارے میں حدیث:حضرت سلیمان فارسی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ٬حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: "قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں
کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے ۔فرشتے کہیں گے:یا اللہ عزوجل اس میں
کس کا وزن کیا جائے گا اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میں اپنی مخلوق میں سے جس کو
چاہوں گا، فرشتے عرض کریں گے : تو پاک ہے ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جو تیری عبادت
کا حق ہے ۔(مستدرک کتاب الاہوال ذکر وسعۃ المیزان ،٥/٨٠٧٫الحدیث:٨٧٧٨)
حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ''نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن
کیا جائے گا اس میں ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا
اور اس کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا
جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا ۔ (شعب
الایمان ،الثامن من شعب الایمان ۔۔الخ،١ /٢٦١ الحدیث:٢٨١)
عبدالرحمن (تخصص فی الحدیث جامعۃ المدینۃ فیضان مدینۃ جوہر
ٹاؤن لاہور ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (تفسیر صراط الجنان ، پارہ 8 ، سورۃ الاعراف آیت نمبر 8 )
اللہ تعالی نے
قرآ ن پاک میں فرمایا : وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ
نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا
بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان:
اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور
اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں
حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر : ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان
پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے
دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے
کافی ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان ، پارہ 17 ،
سورۃ الانبیاء ، آیت نمبر 47 )
وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ(۹)ترجمہ
کنزالایمان: اور جن کے پلّے ہلکے ہوئے تو وہی ہیں جنہوں نے اپنی جان گھاٹے میں ڈالی ان زیادتیوں
کا بدلہ جو ہماری آیتوں پر کرتے تھے ۔ (الاعراف: 9)
احادیث مبارکہ:
حضرت سلمان
فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن
میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی
گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے:اس میں کس کو وزن کیا جائے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے
جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے:
تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔(مستدرک ،
کتاب الاحوال ،ذکر وسعۃ المیزان ،ص 805 ج 7 ح 8778)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ
قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے
درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں
رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔(معجم
الکبیر ، ج، 12 ، ص 194 ،ح ،13024)
حضرت ابو
ہریرہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر
آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمن کو محبوب ہیں (وہ
دو لفظ یہ ہیں ) سبحان اللہ العظیم وسبحان اللہ وبحمدہ ۔ (صحیح
بخاری ،کتاب الدعوات ،باب فضائل التسبیح ،ج 4 ص 220 حدیث: 2404)
اور آخر میں ایک بات ذہن میں رکھ لیں ، صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت
کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر
ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی
نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب
ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم
پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس
کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
مدثر
علی (درجہ سابعہ جامعہ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور ،پاکستان)
میزان حق ہے۔
اس پر لوگوں کے اعمال نیک و بد تولے جائیں گے نیکی
کا پلّہ بھاری ہونے کے یہ معنی ہیں کہ
اوپر اُٹھے، دنیا کا سا معاملہ نہیں کہ
جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔
(1) میزان کسے کہتے ہیں : وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ
کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:8)
تفسیر صراط الجنان: وزن کا معنی ہے کسی چیز کی
مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا
کہتے ہیں۔ اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا
وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں
(2)میزان
سے مراد عدل ہے: وَ السَّمَآءَ
رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ(۷) اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور آسمان
کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی کہ ترازو میں بے اعتدالی(نا انصافی) نہ کرو۔ (الرحمٰن:
7تا 8)
تفسیر صراط الجنان : ایک قول یہ ہے کہ یہاں میزان سے مراد عدل کرنا ہے،اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام
مخلوقات کے درمیان عدل کرنے کا حکم دیا ۔
(3)حضور
صلی اللہ علیہ وسلم عادل ہیں : اَللّٰهُ الَّذِیْۤ
اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَ الْمِیْزَانَؕ ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری
اور انصاف کی ترازو (پ25، الشوری :17)
تفسیر صراط الجنان: بعض
مفسرین نے فرمایا ہے کہ میزان سے تاجدارِ رسالت ﷺ کی ذاتِ گرامی مرادہے کیونکہ آپ ﷺ حق و باطل کو جانچنے کا معیار ہیں ۔
(4)قیامت
کا ترازو: وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ
لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ
حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان
پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اُسے لے آئیں
گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (پ17، الانبیاء:47)
تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو
رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے
گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی
تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا
حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
(5) مومن کی
نیکیاں اچھی صورت : فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗۙ(۶)
فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں۔ (القارعۃ: 6، 7)
حافظ محمد معید (درجہ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضان ابو عطار کراچی ،پاکستان)
وزن
اور میزان کا معنی: وزن کا معنی ہے
کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے
کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ (مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص۸۶۸) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان
کہتے ہیں۔ (تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱) جمہور مفسرین کے
نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔
(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸، ۲ / ۷۸)۔
آیت نمبر
01:وَ الْوَزْنُ
یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۸) ترجمہ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری
ہوئے وہی
مراد کو پہنچے۔ (الاعراف:7، 8)
تفسیر صراط الجنان : اس سے پہلی آیت میں قیامت
کے دن کا ایک حال بیان ہوا کہ اس دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اور ان کی امتوں سے سوال کیا جائے گا، اور اس آیت میں قیامت کے دن کا
دوسرا حال یعنی میزان پر اقوال اور اعمال کا وزن ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔(پارہ:8
٫الاعراف:7 ٫آیت 8)
آیت نمبر 02: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا
بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ لِقَآىٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ
یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵)ترجمہ
کنزالایمان: یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتیں اور اس کا ملنا نہ مانا تو ان
کا کیا دھرا سب اکارت (ضائع)ہے تو ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی تول نہ قائم کریں گے۔ (پ16، الکہف: 105)
تفسیر صراط
الجنان : وزن قائم نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کے ظاہری نیک اعمال کی
کوئی قدر وقیمت ہو گی اور نہ ہی ان میں کوئی وزن ہو گا اور جب میزانِ عمل میں ان کے ظاہری نیک اعمال اور کفر و مَعْصِیَت کا وزن ہو گا تو تمام ظاہری نیک
اعمال بے وزن ثابت ہوں گے کیونکہ نیک
اعمال کی قدر و قیمت اور ان میں وز ن کا
دار ومدار ایمان اور اخلاص پر ہے اور جب یہ لوگ ایمان اور اخلاص سے ہی خالی ہیں تو ان کے اعمال میں وزن کہاں سے ہو گا۔ کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتا ہے: فَلَا نُقِیْمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَزْنًا(۱۰۵) ترجمۂ کنز العرفان:پس ہم ان کے لیے قیامت کے دن
کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔ ( الکہف: 105)
آیت نمبر 03:فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۶) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍؕ(۷) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ
مَوَازِیْنُهٗۙ(۸) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌؕ(۹) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِیَهْؕ(۱۰)
نَارٌ حَامِیَةٌ۠(۱۱) ترجمۂ
کنزالایمان: تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور
جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے
والی گود میں ہے اور
تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعۃ: 6تا 11)
تفسیر صراط الجنان : قیامت کا حال ذکر کرنے کے
بعد یہاں سے قیامت کے دن مخلوق کی دو قسمیں بیان فرمائی گئیں،چنانچہ ان 6 آیات کا خلاصہ یہ
ہے کہ قیامت کے دن حق کی پیروی کرنے کی وجہ سے جس کی نیکیوں کے ترازو بھاری
ہوں گے اوراس کے وزن دار نیک عمل زیادہ
ہوں گے وہ تو جنت کی پسندیدہ زندگی میں
ہوگا اور جس کی نیکیوں کے ترازو اس وجہ سے
ہلکے پڑیں گے کہ وہ باطل کی پیروی کیا کرتا تھا تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہوگا اور
تجھے کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟ وہ ایک شعلے مارتی آگ ہے جس میں انتہا کی سوزش اور تیزی ہے۔ (پارہ:30 ٫القارعۃ:آیت:6-11)
میزان سے
متعلق دو اہم باتیں : یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین
رکھیں :
(1)صحیح اور
متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں
دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ
بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم
کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم
اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت
اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
(2)میزان کو
اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ
مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے
ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق
معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت
کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن،
درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا میں خوب نیکیاں کرنے اور نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق
عطا فرمائے تاکہ ہمیں بروز حشر اپنے نامہ اعمال کے تلنے کے وقت کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے اور
نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین
Dawateislami