اللہ پاک نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے اپنی قوم میں ان کے احوال اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبلیغ فرمائی اور ان کے لیے حق کا راستہ واضح کیا۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے ان قوموں کا ذکر فرمایا ہے جو انبیاء کرام کی وعظ و نصیحت کو کو جھٹلا کر اپنی سرکشی و طغیانی میں مست رہے یہاں تک کہ ان کو اللہ پاک نے عبرت کا نشان بنادیا۔انہیں میں سے قوم لوط بھی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں فحاشی و عریانی سے باز رہنے کی نصیحت کی لیکن انہوں نے سرکشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کردیا، آخر کار اللہ پاک نے انہیں ہلاک کر دیا۔ان نصیحتوں کا ذکر قرآن مجید میں کچھ یوں ہے:

(1) فحاشی نہ کرنے کی نصیحت: قوم لوط ایسے گناہوں میں مبتلا تھی جو ان سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔ وہ مردوں سے لواطت کیا کرتے تھے، راہ زنی کرکے قافلوں کو لوٹتے تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ایسے گناہ کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو نجات دی جب اُس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بےشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔(پ20، العنکبوت: 28)

(2) لواطت نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے قوم لوط سے فرمایا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ بد فعلی کیوں کرتے ہو جبکہ یہ میری بیٹیاں ہیں جن سے چاہو نکاح کرکے پاکیزہ طریقے سے استراحت حاصل کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ ترجمہ کنزالعرفان: لوط نے فرمایا: اے میری قوم! یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں۔(پارہ12،سورہ ھود،آیت:78)

(3) پچھلی قوموں کی ہلاکت سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ تم فحاشی کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ چکے ہو پچھلی قوموں کا انجام،کہ کیسے اللہ پاک نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا، یا اس کی قباحت تم بھی دیکھ رہےہو پھر بھی یہ کام کرتے ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(54) ترجمہ کنزالعرفان:اور لوط کو یاد کروجب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا کام کرتے ہوحالانکہ تم دیکھ رہے ہو۔(پارہ19،سورہ نمل،آیت54)

(4) ان معاملات میں اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فحاشی کے کاموں کے متعلق اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت کی، کیونکہ اللہ پاک کو فحاشی پسند نہیں اور اللہ پاک نے ان کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَاتَّقُوا اللّٰهَ ترجمہ کنزالعرفان: تو اللہ سے ڈرو۔ (پارہ12، سورہ ھود،آیت78)

(5) مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: جب حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تو انکی قوم دوڑ کر خوشی خوشی آئی تاکہ ان سے بد فعلی کرسکیں تو حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(67)قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69)ترجمہ کنزالعرفان:اور شہر والے خوشی خوشی آئے۔ لوط نے فرمایا: یہ میرے مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو ۔اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔(پارہ14،سورہ حجر،آیت67،68،69)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نافرمانی والے کاموں سے بچائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔