لفظِ نصیحت
سنتے ہی انسان کا ذہن اچھائی کو اپنانے
اور برائی سے باز رہنے کی طرف جاتاہے ۔کیونکہ اِس کا مقصد ہی بھلائی کی طرف بلانا اور فساد سے روکنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ
تعالی نےاچھی نصیحت کا حکم دیا ہے ارشاد
باری تعالی ہے :اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ
الْحَسَنَةِ ترجَمۂ کنزُ
العرفان: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔ (پ14 ، النحل : 125)
اس آیت سے پتا
چلا کہ اللہ پاک کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اچھی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔اللہ
تعالی نے اسی حکم کے عملی اظہار کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کا انتخاب فرمایا جو اپنی قوموں
کو نصیحت کے ذریعے سمجھاتے رہے ۔ان پاک ہستیوں میں حضرت لوط علیہ السلام بھی شامل
ہیں جنہوں نے اپنی قوم کو توحید کا اقرار کرنے،شرک سے بچنے ،اپنے رب کا خوف اور
بے حیائی و بری باتوں سے بچنے کی نصیحتیں کیں۔ ان میں چند ایک کا
ذکر درج ذیل ہیں :
(1)بے
حیائی اور بروں کام سے بچنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ
السلام نے اپنی قوم کو ،فعل بد اور بے حیائی سے بچنے کی سختی سے تاکید فرمائی،
قرآن پاک میں ہے: وَ
لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا
مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(80) ترجمۂ کنزالعرفان: اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے
اپنی قوم سے کہا :کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں
کی۔ )سورۃ الاعراف :80(
(2) برے انجام سے ڈرانے کی نصیحت :
جب حکمتِ الہی
اور فطری تقاضوں کو چھوڑ کر قومِ لوط نے اپنی خواہشات نفسانی کو کسی دوسرے ذرائع (یعنی
مردوں کے ذریعے سے) سے پورا کرنے کی کوشش
کی، اس پر حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی
قوم کو نصیحت فرمائی۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے : اسی طرح سورۃ
النمل میں ہے : اَىٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ
تَجْهَلُوْنَ(55) ترجمۂ کنزالعرفان: کیا تم عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے
پاس شہوت سے جاتے ہو بلکہ تم جاہل لوگ ہو۔)سورۃ النمل : 55(
(3)اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول کی اطاعت کی نصیحت: جب قوم لوط نے اللہ کے نبی حضرت
لوط علیہ السلام کو جھٹلایا نیز شرک اور گناہ کی زندگی گزارنے لگے تو آپ علیہ
السلام نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا۔قرآن پاک
میں ہے: اِذْ قَالَ لَهُمْ
اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(162)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(163)ترجمۂ
کنزالعرفان: جب ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں
تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں تو اللہ سے
ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ )سورۃ الشعراء، آیت 160 تا 164(
(4)
مہمان کی عزت و احترام کرنے کی نصیحت: قوم لوط نے جب لوط علیہ السلام کے مہمانوں کو تکلیف
پہنچانے کا ارادہ کیا تو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی اور
مہمان کے آداب بتائے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا
تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69) ترجمۂ کنزالعرفان: لوط نے فرمایا: یہ میرے
مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو اور
اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (سورۃ حِجر، 68،69 )
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع انبیا کی سنت ہے۔ (صراط الجنان )
اللہ پاک ہمیں بے حیائی ،برے کاموں اور اپنی نافرمانیوں سے
بچائے اور ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین