جس طرح انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور مخلوقات میں افضل ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح اس کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے جدا گانہ ہیں ۔ ان ذمہ داریوں میں سے اولاد کی تربیت اور حقوق بھی ہیں، جس کا ادا کرنا انسان پر فرض ہے۔  جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

(1)بعد از پیدائش حقوق :بچے کی پیدائش کے بعد جو حقوق اسلام کی طرف سے ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

حق زندگی: قبل از اسلام لوگ اپنی اولاد کو معاشی تنگی اور مذہبی عقیدگی کی بنا پر معبودوں کیلئے قربان کیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت نے اولاد کو حق زندگی عطا کرتے ہوئے قتل کو قانونی جرم قرار دیا۔ خواہ محرکات معاشی ہوں یا مذہبی ۔ معاشی تنگدستی کی بنا پر اولاد کے قتل کو روکتے ہوئے قرآن کریم ان الفاظ میں حکم دیتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بے شک انکا قتل بڑی خطا ہے ۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 31)

(2)حق رضاعت: بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جس خوراک کا محتاج ہوتا ہے اس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی صورت میں کیا۔ قرآن مجید میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھاجائے گا مگر اس کے مقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے ، یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مُضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۃ البقرہ، آیت نمبر: 233)

(3)حق مساوات: بچوں کے بنیادی حقوق میں سے اولاد کے مابین مساوات اور عدل قائم کرنا بھی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا :میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ حضور علیہ السّلام نے فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے ؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے لو۔ (صحیح بخاری : صفحہ نمبر 2446)

(4)تربیت: بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق مختلف انداز سے حضور نے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے مارو، اور دس سال کی عمر میں انہیں الگ الگ سلایا کرو“ (ابو داؤد: صفحہ نمبر 495)

(5)حق نکاح: والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اولاد کے بہتر نکاح کیلئے مناسب اقدام کریں۔ 

اسلام ایک دینِ کامل اور مکمل طور پر فطرت کے مطابق ہے اور اسی طرح اسلامی تعلیمات انسان کی زندگی کے تمام شعبوں کو گھیرے ہوئے  ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی تکریم کا درس دیا ہے تو اسی طرح اولاد کے حقوق کا بھی ، قرآن کریم میں کئی جگہ حکم دیا ہے اللہ پاک سورۃُ التحریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والواپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

ذیل میں اولاد کے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

(1) نیک بیوی کا انتخاب: ویسے تو انسان کی مکمل زندگی قرآن و سنّت کے مطابق ہونی چاہیے مگر کچھ امور ایسے ہیں جن کا اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے،اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مرد نیک بیوی تلاش کرے۔ کیونکہ ماں کی اچھی یا بری عادات کل اولاد میں بھی منتقل ہوں گی ۔(تربیتِ اولاد، ص30)

اللّہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "بے شک دنیا استعمال کی چیز ہے ، نیک اور صالحہ عورت دنیا کے مال اور متاع سے افضل و بہترین ہے"۔ (ابن ماجہ،412/2،حدیث1855)

(2) اچھے نام کا انتخاب : والدین کو چاہیے کہ اپنے بچّے کا اچھا نام رکھیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔" ( ابو داود،374/4،حدیث 4948)

اِس فرمان سے وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو اپنے بچے کا نام کسی فلمی اداکار یا (معاذاللہ عزَّ وجل) کفار کے نام پر رکھ دیتے ہیں ،اس سے بد ترین ذلت کیا ہوگی کہ مسلمان کی اولاد کو کل میدانِ حشر میں کفار کے ناموں سے پکارا جائے۔ (تربیتِ اولاد، ص66تا67)

(3) اولاد کو علمِ دین سیکھائیے: تفسیرِ صراط الجنان میں ہے کہ عالِم بیٹا اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے۔ ہر مسلمان کو نصیحت ہے کہ اپنی اولاد کو دین کا علم سیکھائے۔افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر و اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتےبلکہ دن رات دنیوی علوم وفنون میں اُس کی ترقی کے لیے کوششیں کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے دلوائی گئی دینی تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اُسے اُن عقائد کا علم نہیں ہوتا جن پر مسلمان کے دین و ایمان اور اُخروی نجات کا دارو مدار ہے مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اُسے قرآن مجید تک صحیح پڑھنا نہیں آتا،فرض عبادات سے متعلق باتیں نہیں جانتا،نماز روزے اور حج زکوٰۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے اکثر دینِ اسلام سے بیزار نظر آتے ہیں ۔ (صراط الجنان،243/5)

(4) اپنی اولاد کو رزق حلال کھلائیے : تکمیلِ ضروریات (اپنی ضرورتیں پوری کرنے) کے لیے ہر گز ہر گز حرام کمائی کے جال میں نہ پھنسیں یہ آپ کے لیے اور آپ کے گھر والوں کے لیے بہت بڑے خسارے کا باعث ہے۔ جیسا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ گوشت ہر گز جنت میں داخل نہ ہو گا جو حرام میں پلا بڑھا ہو۔ (سننِ دارمی،409/2حدیث2776)

(5) اولاد کی جلدی شادی کر دیجئے: بیٹوں کے جوان ہونے پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اُن کی نیک، صالحہ عورت سے جلدی شادی کر دیں۔بلا وجہ تاخیر نہ کی جائے (تربیتِ اولاد/178) جیسا کہ ہمارے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اُس کا اچھا نام رکھے اور آداب سکھائے ، جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے ، اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور لڑکا مبتلائے گناہ ہوا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا "(شعب الایمان،401/6،حدیث8666)


اسلام ایک آفاقی دین ہے جس کے دامن میں زندگی کے ہر حوالے سے مکمل باضابطہ رہنمائی موجود ہے ۔جب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس نے باپ پر بیٹے کے حوالے سے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کیا تاکہ ان حقوق پر عمل پیرا ہو کر   وہ کامیاب باپ بننے کے ساتھ ساتھ اخروی سعادتوں سے بھی بہرہ ور ہو سکے ۔ ذیل میں کچھ اولاد کے کچھ حقوق بیان کئے جارہے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) اچھے نام رکھنا: بچے کی پیدائش کے بعد اس کا پہلا حق یہ ہے کہ اسکا اچھا نام رکھا جائے۔ اچھے نام رکھنا بچے کی شخصیت پر بھی اثر انداز ہو گا اور اچھا نام اس کیلئے باعثِ سکون بھی ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے ۔ چنانچہ نام اچھے رکھا کرو (سننِ ابی داؤد ،کتاب الادب،حدیث:4948)

(2) زندگی کی حفاظت: اولاد کا والدین پر بنیادی حق یہ بھی ہے کہ انکی زندگی کی حفاظت کریں، زمانہ جاہلیت کی طرح ان کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کریں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَقْتُلُـوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(31) ترجمہ کنزالایمان:اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔(بنی اسرائیل: 31)

(3) اچھے آداب سکھانا: والد پر بچے کا بنیادی حق یہ ہے کہ اسے اچھے آداب سکھائے ۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ ۔ (ابن ماجہ، 179/4،حدیث:3671)

(4) مساوات کا حق: اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔اگر ایک کو کپڑے خرید کر دیئے تو دوسرے کو بھی خرید کر دیں ، اگر ایک کو کوئی چیز تحفہ دی تو دوسرے کو بھی دیں نیز ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ اس حوالے سے اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:اپنی اولاد کو برابر دو ، اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو دیتا۔ (المعجم الکبیر ،ج280/11، حدیث:11997)

(5) شادی میں جلدی کرنا: جب اولاد بالغ ہو جائے تو والدین پر لازم ہے کہ ان کی شادی کروانے میں جلدی کریں ۔ اگر معاذاللہ وہ گناہوں میں پڑ گئے تو اس کا گناہ انکو بھی برابر ملے گا۔ چنانچہ سید المرسلین ،خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کسی کے ہاں بیٹا ہو ، وہ اسکا اچھا نام رکھے ، اچھی پرورش کرے اور جب وہ (بچہ/ بچی) بالغ ہو تو نکاح کردے اگر اس (والد) نے ایسا (نکاح) نہ کیا اور اس (بچے/ بچی) نے گناہ کردیا تو یہ گناہ اس کے والد کے سر پر ہوگا ۔ (مشکوٰۃ شریف، کتاب النکاح، جلد 939/2، حدیث 3138 مطبوعہ بیروت )

اللہ کریم ہمیں اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام ایک ایسا دین ہے  جس میں انسان کی پیدائش ‏سے پہلے سے لے کر مرنے کے بعد تک کے احوال سے مطلع کیا گیا ‏،

اللہ تعالیٰ نے قرآن اور صاحب قرآن کے ذریعے سے انسان کو دین ودنیا کے ہر کام کو کرنےکا احسن طریقہ ‏کار بتایا ‏ اسی نظام دنیا کو بہترین بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب افراد کے لیے ایک دوسرے پر کچھ حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ جیسے شاگرد پر استاذ کے حقوق قائم فرمائے اسی طرح استاذ پر شاگرد کے حقوق مقرر کئے ، اسی طرح والدین پر اولاد کے کچھ حقوق بھی لازم فرمائے ہیں، اولاد کے چند حقوق پیدائش سے پہلے اور چند حقوق پیدائش کے بعد ادا کرنے کا حکم فرمایا گیا ان میں سے چند حقوق ملاحظہ کیجئے:

نیک عورت کا ‏انتخاب: ‏ سب سے پہلا حق اولاد کا یہ ہے کہ ان کے لیے اچھی ماں تلاش کی جائے کیونکہ ماں کی اچھی یا بری عادات کل ‏اولاد میں بھی منتقل ہوں گی بہت ساری احادیث مبارکہ میں مرد کو نیک،صالحہ اور اچھی عادات کی حامل پاک ‏دامن بیوی کا انتخاب کرنے کی تاکید کی گئی ہے چنا نچہ

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن ‏العیوب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے چار چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ‏ہے(1)اس کا مال (2)حسب نسب (3)حسن و جمال(4)دین ، تمہارا ہاتھ خاک آلود ہو تم دین دار عورت کے حصول کے لیے کوشش کرو۔ ‏(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاكفاء فی الدین ، حدیث: ٥٠٩،ج٣، ص٤٣٩)‏

کان میں اذان ‏: بچہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتدا ہی سے بچے کے کان ‏میں اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہنچ جائے ‏۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کی ولادت پر ان کے کان ‏میں خود اذان دی جیسا کہ حضرت سیدنا رافعی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ تعالی ‏عنھاکے ہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کان ‏میں نماز والی اذان دیتے دیکھا ‏۔ ‏(جامع ترمذی ،کتاب الاضاحی، باب الاذان فی اذن المولود ،الحدیث:١٥١٩، ج٣،ص١٧٣)‏

نام رکھنا ‏: ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے والدین کو چاہیے کہ بچے کا اچھا نام رکھیں کہ یہ ان کی طرف سے اپنے بچے کے ‏لیے سب سے پہلا اور بنیادی تحفہ ہے جسے وہ عمر بھر اپنے سینے سے لگا کر رکھتا ہے، یہاں تک کہ جب میدان حشر ‏بپا ہوگا تو وہ اسی نام سے مالک کائنات عزوجل کے حضور بلایا جائے گا جیسا کہ حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی ‏عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں ‏سے پکارے جاؤ گے لہذا اچھے نام رکھا کرو ‏۔ ‏(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی تغییر الاسماء،الحدیث: ٤٩٤٨، ج٤، ص٣٨٤)‏

اللہ پاک ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو اپنا مطیع فرمانبردار بنائے۔ امین 


اولاد اللہ پاک کی وہ عظیم نعمت ہے جن کی خاطر والدین سخت گرمی و سردی کو دامن گیر لائے بغیر محنت مزدوری کرتے ہیں یہی اولاد ‏اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتی ہے اس کی اگر صحیح معنوں میں تربیت اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں تو یہ دنیا ‏میں اپنے والدین کیلئے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ بچپن میں ان کے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور ‏ہوگی۔ اگر ان کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو یہ سہارے کی بجائے وبال ہی بنے گی۔ آئیے! تربیتِ اولاد کے حوالے سے کچھ ‏حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ادائیگیِ حقوق کی وجہ سے اولاد دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکے۔

‏(1)سب سے پہلا حق‏: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ اولاد کا سب سے پہلا حق جو اس کی ‏پیدائش سے بھی پہلے ہے کہ آدمی کسی رذیل کم قوم (نیچ ذات) عورت سے نکاح نہ کرے کہ بُری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔(اولاد کے ‏حقوق، ص15)‏

‏(‏2)تمام بچوں سے مساوی سلوک: امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس بات میں کوئی بُرائی نہیں کہ اولاد میں سے ‏کسی کو فضیلتِ دین کی وجہ سے ترجیح دی جائے ہاں اگر دونوں برابر ہوں تو ان میں سے کسی کو ترجیح دینا مکروہ ہے۔(الخانیہ،2/290)‏

‏(‏3)نیک کاموں میں مدد: والدین کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کو نیک کاموں کی ترغیب دے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر ان ‏کی مدد کریں جس طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک اس باپ پر رحم فرمائے جو اپنی اولاد کی نیک کام پر مدد کرتا ‏ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 6/101، حدیث:1)‏

‏(‏4)ادب سکھانا‏: حدیثِ مبارکہ میں ہے: باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے اچھی طرح ادب ‏سکھائے۔

‏(دیکھئے:شعب الايمان،6/400، حديث: 8658)‏

‏(‏5)ساتویں دن سے لے کر 16سال کی عمر تک مختلف حقوق: بچے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق ‏کیا جائے (یعنی سر کے بال اتارے جائیں)۔(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ، 5/532، حدیث:1، 2) سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دے۔(دیکھئے: اولاد ‏کے حقوق، ص21) 10سال کی عمر میں بستر الگ کر دے، اسی عمر میں مار کر نماز پڑھائے، جوان ہو جائے تو شادی کر دے، شادی میں ‏قوم، دین، سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔(دیکھئے: اولاد کے حقوق،ص26)‏

پیارے اسلامی بھائیو! یہ اولاد ایک گرین شاخ کی طرح ہے جس کی سمت آدمی اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتا ہے لیکن کچھ ‏عرصہ بعد یہ ایک بانس کی صورت اختیار کر جائے گی جس کو سیدھا کرنے کی کوشش سے یہ ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ اگر ہم اپنی ‏اولاد کی اچھی تربیت کریں گے اور انہیں نماز روزہ اور اس کے علاوہ دیگر احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کا پابند بنائیں گے تو یہ اولاد دنیا ‏میں بھی ہمارے لئے راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی اور ہمارے مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے ایصالِ ثواب اور دُعائے خیر ‏کرکے آخرت میں بھی بخشش کا سامان ہو گی۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ والدین کو اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم‏


حضور اکرم نور مجسم شاہ بنی ادم صلی اللہ تعالی علیہ والہ  وسلم نے بہت سے مقامات پر اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور امت کی رہنمائی فرمائی۔ آئیں ہم ان میں سے پانچ احادیث مبارکہ سنتے ہیں جن میں نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام اور تمام امت کی رہنمائی فرمائی اور ان کی تربیت فرمائی:

(1) پانچ کے بدلے پانچ: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے بدلے میں ہیں ، عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ پانچ چیزوں کے بدلے پانچ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا ( 1 ) جو بھی قوم معاہدہ کی خلاف ورزی کرتی ہے، اس پر ان کے دشمن مسلط کر دیے جاتے ہیں (2) جولوگ ( عوام و حکمران وغیرہ ) اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کریں، تو ان پر فقیری ( دوسروں کی محتاجی، بھیک ) مسلط کر دی جاتی ہے (3) جس قوم میں فحاشی عام ہو جاتی ہے، ان پر موت بکثرت مسلط کر دی جاتی ہے (4) جن لوگوں نے زکوۃ کو روک لیا، ان سے بارشیں روک لی جاتی ہیں (5) جس قوم نے ناپ تول میں کمی کی، اس قوم کی پیداوار کم ہو جاتی ہے، وہ قحط سالی میں مبتلا کر دئے جاتے ہیں ۔ (الترغيب والترهيب : 2/16 ، حدیث : 765 ۔ صحيح الجامع : 3240 ، الزواجر : 1/170)

(2) 5 چیزیں جو ہمارے نبی سے پہلے کسی کونہ ملیں: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مجھے 5 ایسی چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ (1) ایک مہینے کی مسافت پر دشمن پر میرا رعب ڈال دیا گیا۔ (2) ساری زمین کو میرے لیے جائے نماز اور پاک کرنے والی بنا دیا گیا ہے۔ لہذا میرے امتی کو جہاں نماز کا وقت آجائے ، وہ وہیں نماز پڑھ لے۔ (3) میرے لیے مال غنیمت حلال کر دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہ تھا۔ (4) مجھے شفاعت کبری عطا کی گئی ہے۔ (5) پہلے نبی صرف اپنی قوم کے لیے آیا کرتے تھے، جبکہ میں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ ( صحیح بخاری : 335 ، راوی : سید نا جابر بن عبد الله )

(3) رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: (1) اس کی "عمر" کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا (2) اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا (3) اس کے "مال" کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا (4) اور یہ مال کس چیز میں خرچ کیا، اور (5) اس کے "علم" کے بارے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔ ( جامع ترمذى، مشكوة المصابيح : 5197)

(4) حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق پانچ چیزوں سے محروم رہتا ہے (1)دین کی سمجھ بوجھ سے محروم ہوتا ہے (2)زبان کی رکھوالی سے محروم ہوتاہے (3)چہرے کی رونق سے محروم ہوتا ہے (4) مسلمانوں کی محبت سے محروم ہوتا ہے(5) دل کے نور سے محروم ہوتا ۔ (تنبیہ الغافلین، حصہ (1)صفحہ (286)مکتبہ نوریہ رضویہ)

(5) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: محشر کے روز جو شخص پانچ چیزیں لے کر آئے گا وہ ایمان کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا (1)جس شخص نے پانچ نمازوں کے وضو اور رکوع اور سجود کا خیال رکھتے ہوئے ان کے اوقات میں ان کی حفاظت کی(2) جس شخص نے خوش دلی سے زکوۃ دی پھر فرمایا کہ ایسا تو مومن ہی کر سکتا ہے(3) جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے (4)جس شخص نےاستطاعت رکھنے پر حج کیا(5) جس نے امانت ادا کی۔ (تنبیہ الغافلین، حصہ 1 ، صفحہ537 مکتبہ نوریہ رضویہ مترجم)

اللہ پاک ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔


اللہ تعالی نے اس کائنات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم کو معلم کائنات بنا کر بھیجا تاکہ آقائے  دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت کی رہنمائی فرمائیں، اللہ پاک نے آپ پر قرآن کریم کو نازل کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی امت کی تربیت فرمائی اور بعض جگہ اپنی احادیث مبارکہ کے ساتھ تربیت فرمائی تاکہ آپ کی امت سیدھی راہ پر چلے اور سیدھی راہ سے بھٹک نہ جائے آئیے تربیت کے موضوع پہ احادیث مبارکہ کا مطالعہ فرمائیے:

(1) ﷲ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا: حضرت ابو سعید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو جنتی لکھ دے گا: (1) جو مریض کو پوچھنے جائے اور (2) جنازے میں حاضر ہو اور (3) روزہ رکھے اور (4) جمعہ کو جائے اور (5) غلام آزاد کرے۔‘‘ ( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، الحدیث : 2760 ، ج 4 ، ص191)

(2) اﷲ عزوجل کی ضمان میں آجائے گا: حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’پانچ چیزیں ہیں کہ جو ان میں سے ایک بھی کرے، اﷲ عزوجل کی ضمان میں آجائے گا۔ (1) مریض کی عیادت کرے (2) یا جنازہ کے ساتھ جائے (3) یا غزوہ کو جائے (4) یا امام کے پاس اس کی تعظیم و توقیر کے ارادہ سے جائے (5) یا اپنے گھر میں بیٹھا رہے کہ لوگ اس سے سلامت رہیں اور وہ لوگوں سے۔‘‘ ( ’’ المسند ‘‘ للامام أحمد بن حنبل، حدیث معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ، الحدیث : 22154، ج 8 ، ص 255)

(3) انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت : حضرت ابوہریر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ، یعنی انبیائے سابقین علیہم السلام کی سنت سے ہیں ۔ (1) ختنہ کرنا اور (2) موئے زیرِ ناف مونڈنا اور (3) مونچھیں کم کرنا اور (4) ناخن ترشوانا اور (5) بغل کے بال اُکھیڑنا۔(صحیح مسلم ،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،الحدیث: 50۔(257) ،ص 153)

(4) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں: حضرت ابو موسیٰ سے فرماتے ہیں کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں بتانے کے لئے قیام فرمایا : یقیناً الله تعالیٰ نہ سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے ، پلہ یا رزق جھکاتا یا اٹھاتاہے اس کی بارگاہ میں رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش ہوجاتے ہیں اس کا پردہ نور ہے اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں(تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:91 )

(5) اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: حضرت سیِّدُنا ابو عبد الرحمٰن عبد اللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ”اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بےشک حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ دینا، بیْتُ اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ ( مسلم، کتاب الایمان، باب ارکان الاسلام...الخ، ص 37، حدیث:113)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تربیت کے لغوی معنی ادب سکھانا ، ، کسی کی اصلاح کرنا،

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کی طرف اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ ‏لوگوں کی تربیت کی جائے ۔حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مختلف اوقات میں اور مختلف انداز (کبھی ‏اقوال سے اور کبھی افعال)سے اپنے غلاموں کی تربیت فرمائی۔کبھی حضور علیہ السلام کا انداز ‏یہ رہا کہ آپ نے اعداد میں اپنی امت کی تربیت فرمائی۔درج ذیل میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ‏وہ پانچ فرامین بیان کیے جائیں گے ۔جن میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پانچ چیزوں کو ذکر فرمایا کر اپنی ‏امت کی رہنمائی فرمائی:‏

‏(1) مسلمان کے پانچ حقوق ہیں: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حقوق کو بیان فرمایا ‏جیسا کہ بخاری شریف میں ہے ۔ عن أَبَی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ : رَدُّ ‏السَّلَامِ ، وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ ،وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :’’ پانچ چیزیں مسلمان کے مسلمان ‏پر حقوق میں شامل ہیں : (1)سلام کا جواب دینا (2) دعوت قبول کرنا (3)جنازے میں حاضر ہونا (4)بیمار ‏کی عیادت کرنا (5)اور جب چھینکنے والا اللہ کی تعریف کرے ( الحمدللہ کہے ) تو اسے دعا دینا ( یرحمك اللہ کہنا ) ۔ ‏ ( صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز، 244/1الحدیث:1240)‏

‏(2) پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، ‏حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے ‏بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2)اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔(3) اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔(4) اپنی ‏مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔(5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔ ‏‏(مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب،الرقاق، الفصل الثانی، 719/2 الحدیث:5173 )‏

‏(3) پانچ چیزوں کے بارے میں سوال ہو گا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی ‏کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتّٰی کہ اس سے ‏پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (1)اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ ‏کی (2)اس کی جوانی کے بارے میں کہ کس کام میں گزری (3، 4)اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں ‏سے کمایا اور کہاں خرچ کیا (5) اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا۔ ‏( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع، باب فی القیامۃ، 4 / 188، الحدیث: 2424 بیروت)‏‏ ‏

‏(4) پانچ ہلاک کر دینے والی چیزیں: حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، رسولِ کریم صَلَّی ‏اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’اے مہاجرین! جب تم پانچ ‏کاموں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو تمہارا کیا حال ہو گا) اور میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان کاموں میں مبتلا ‏ہو جاؤ:

(1)جب کسی قوم میں بے حیائی کے کام اِعلانیہ ہونے لگ جائیں تو ان میں طاعون اور وہ بیماریاں عام ‏ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں (2) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو ان پر ‏قحط اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور بادشاہ ان پر ظلم کرتے ہیں (3) جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیتے ‏ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش کو روک دیتا ہے،اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ‏گرتا (4) جب لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ ‏تعالیٰ ان پر دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے اوروہ ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لیتے ہیں ۔ (5) جب مسلمان ‏حکمران اللہ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کردوسرا قانون نافذکرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کچھ پر ‏عمل کرتے اور کچھ کو چھوڑدیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما دیتا ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الفتن باب العقوبات 2/ 496، الحدیث: 1818 ضیاء القرآن) ‏

‏(5) پانچ چیزیں انبیاء کی سنت ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲ صلَّی ‏ اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ، یعنی انبیاء سابقین علیہم السلام کی سنت سے ‏ہیں ۔ (1) ختنہ کرنا اور(2) موئے زیرِ ناف مونڈنا اور (3) مونچھیں کم کرنا اور (4)ناخن ترشوانا اور (5) ‏بغل کے بال اُکھیڑنا۔ ( صحیح مسلم ،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،1/ 161 الحدیث: 597 رحمانیہ)‏

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر عمل کرنے کی توفیق فرمائے اورحضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایک مسلمان کی زندگی میں پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ کی بے انتہا اہمیت ہے ‏کلام اللہ( قرآن مجید) کے بعد کلام رسول (حدیث شریف) کا ہی درجہ ہے ، کوئی بھی کلام اس سے بڑھ نہیں ‏سکتا۔

حدیث مبارک ہی سے انسان کو معرفتِ الہی حاصل ہوتی ہے اور معرفتِ الہی ہی توحید کی اصل ہے، حدیث ‏مبارک ہی مسلمان کو عبادت کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عبادات کا شرعی مفہوم بھی احادیث سے ہی ملتا ہے ‏حدیث مبارکہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں رہنمائی فرماتی ہیں، خواہ وہ سیاسی شعبہ ہو یا کاروباری خواہ وہ سائنس ہو ‏یا نجی زندگی، دینی معاملات ہوں یا دنیوی۔

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند وہ فرامین پڑھیے جس میں پانچ چیزوں کے بیان سے تربیت فرمائی ہے اور عمل کی نیت کیجئے ‏:

‏(1) حضرت سیِّدُنا ابو عبد الرحمٰن عبد اللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے رسولِ پاک صلّی ‏اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ارشاد فرماتے سنا کہ ”اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک ‏کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بےشک حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم اللہ کے بندے اور رسول ‏ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، بیْتُ اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“‏‏( بخاری، كتاب الايمان، باب دعائكم ايمانكم، 1/ 14، حدیث:8۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ارکان ‏الاسلام...الخ، ص 37، حدیث:113)‏

‏(2) حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم میں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں بتانے ‏کیلئے قیام فرمایا: (1) یقینًا الله تعالٰی نہ سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے (2) پلہ یا رزق جھکاتا یا اٹھاتاہے (3) اس کی بارگاہ میں رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش ‏ہوجاتے ہیں (4) اس کا پردہ نور ہے ‏ (5) اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں(تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں ۔‏(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:91)‏

مراۃ المناجیح میں ہے : یعنی آپ وعظ کے لیے کھڑے ہوئے اور وعظ میں یہ پانچ چیزیں بیان فرمائیں۔ (الله تعالٰی نہ سوتا ہے نہ سونا اس ‏کے لائق ہے) کیونکہ نیند ایک قسم کی موت ہے اسی لیے جنت دوزخ میں نیند نہ ہوگی رب تعالٰی موت سے ‏پاک ہے،نیز نیندتھکن اتارنے اور آرام کے لئے ہوتی ہے۔پروردگار تھکن سے پاک ہے ارشاد فرماتا ‏ہے:"وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ "اس میں ان مشرکین کا رد ہے جو کہتے تھے کہ الله تعالٰی دنیا بنا کر تھک گیا اب دنیا کا ‏کام ہمارے بُت چلا رہے ہیں۔معاذ اللہ

‏‏(اس کا پردہ نور ہے ) یعنی اللہ تعالٰی نور ہے مخلوق کثیف، اس لیے مخلوق اسے نہیں دیکھ سکتی۔مرقاۃ میں ہے کہ ‏ہمارے حضور نے اپنے رب کو دنیا میں اس لیے دیکھ لیا کہ حضور خود نور ہوگئے تھے نیز حضور نے دعا مانگی ‏تھی۔"وَاجْعَلنِی نُورًا"خدایا مجھے نور بنادے حضور کی دعا قبول ہوئی اور آپ نور ہوگئے۔

‏(اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں(تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں) یہ طاقت فرشتوں کو بھی ‏اور دیگر مخلوقات کو بھی نہیں ہے یہ طاقت تو ہمارے حضور کی تھی کہ معراج میں عین ذات کو بغیرحجاب دیکھا ‏اورپلک بھی نہ جھپکایا رب تعالٰی فرماتاہے:"مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی"۔‏ ‏(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:91)‏

‏(3) حضرت ابودرداء سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینًا اللہ ‏تعالٰی اپنی مخلوق میں ہر بندہ کے متعلق پانچ چیزوں سے فارغ ہوچکا ہے اس کی موت سے، اس کے عمل سے ہر ‏حرکت وسکون سے اور اس کے رزق سے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:113)‏

اس حدیث کی شرح میں ہے: ‏ یعنی اٹل فیصلہ فرماچکا ورنہ رب تعالٰی مشغولیت اور فراغت سے پاک ہے اگرچہ رب تعالٰی کا فیصلہ ہر قسم کا ہو ‏چکا ہے مگر خصوصیت سے ان پانچوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ انسان کو ان کی فکر زیادہ رہتی ہے مطلب یہ ہے ‏کہ تم ان فکروں میں زندگی برباد کیوں کرتے ہو جو فیصلہ ہوچکا وہ ہو کر رہے گا۔ ‏(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:113)‏

‏(4) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ دو عالَم کے مالک ومختار ، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی ‏ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں : سلام کا جواب ‏دینا ، بیمار کی عیادت کرنا ، جنازوں کے پیچھے چلنا ، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔ ‘‘‏(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 حدیث نمبر:238)‏

‏اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


معاشرے کے افراد سے بُری خصلتوں کو دور کر کے انہیں اچھی خصلتوں سے آراستہ کرنا انبیائے کرام علیہمُ السّلام کا طریقہ ہے۔ ‏نور والے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تربیت ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ الله پاک کے سب سے آخری نبی ‏حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مواقع پر اپنی اُمت کی تربیت فرمائی۔ ان میں سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پانچ چیزوں ‏کے بیان سے اپنی اُمت کی تربیت فرمانا ملاحظہ کیجئے۔

‏(1)ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق‏: دوعالَم کے مالک ومختار، مکی مَدَنی مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ‏ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے پیچھے چلنا، دعوت قبول کرنا ‏اور چھینک کا جواب دینا۔(فیضان ریاض الصالحین، 3/295، حدیث:238)‏

‏(2)اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا: اس کی گواہی کہ الله ‏کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے ‏روزے رکھنا۔(مراٰۃ المناجیح،1/27)‏

‏(3)شہید پانچ ہیں: رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ شہید پانچ ہیں: طاعون والا، پیٹ کی بیماری والا، ڈوبا ہوا، دَب ‏کر مرنے والا اور الله کی راہ کا شہید۔(مراٰۃ المناجیح، 2/413)‏

‏(4)پانچ دعائیں بہت قبول کی جاتی ہیں: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پانچ دعائیں بہت قبول کی جاتی ہیں مظلوم کی دعا حتّٰی ‏کہ بدلہ لے لے، حاجی کی دعا حتّٰی کہ لوٹ آئے، غازی کی دعا حتّٰی کہ جنگ بند ہو جائے، بیمار کی دعا حتّٰی کہ تندرست ہو جائے، ‏مسلمان بھائی کی پس پشت دعا۔(مراٰۃ المناجیح، 3/303)‏

‏(5)پانچ چیزوں سے پناہ مانگنا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پانچ چیزوں سے پناہ مانگتے تھے، بزدلی سے، بخل سے، بُری عمر سے، سینوں ‏کے فتنوں اور قبر کے عذاب سے۔

بُری عمر سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت ہے جب اعضاء جواب دے جائیں اور انسان اپنے گھر والوں پر بوجھ بن جائے۔

‏(مراٰۃ المناجیح، 4/61)‏

اللہ پاک ہمیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان فرامین پر عمل پیرا ہونے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 اللہ پاک نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے اپنی قوم میں ان کے احوال اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبلیغ فرمائی اور ان کے لیے حق کا راستہ واضح کیا۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے ان قوموں کا ذکر فرمایا ہے جو انبیاء کرام کی وعظ و نصیحت کو کو جھٹلا کر اپنی سرکشی و طغیانی میں مست رہے یہاں تک کہ ان کو اللہ پاک نے عبرت کا نشان بنادیا۔انہیں میں سے قوم لوط بھی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں فحاشی و عریانی سے باز رہنے کی نصیحت کی لیکن انہوں نے سرکشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کردیا، آخر کار اللہ پاک نے انہیں ہلاک کر دیا۔ان نصیحتوں کا ذکر قرآن مجید میں کچھ یوں ہے:

(1) فحاشی نہ کرنے کی نصیحت: قوم لوط ایسے گناہوں میں مبتلا تھی جو ان سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیے تھے۔ وہ مردوں سے لواطت کیا کرتے تھے، راہ زنی کرکے قافلوں کو لوٹتے تھے ۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ایسے گناہ کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو نجات دی جب اُس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بےشک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔(پ20، العنکبوت: 28)

(2) لواطت نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے قوم لوط سے فرمایا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ بد فعلی کیوں کرتے ہو جبکہ یہ میری بیٹیاں ہیں جن سے چاہو نکاح کرکے پاکیزہ طریقے سے استراحت حاصل کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ ترجمہ کنزالعرفان: لوط نے فرمایا: اے میری قوم! یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے پاکیزہ ہیں۔(پارہ12،سورہ ھود،آیت:78)

(3) پچھلی قوموں کی ہلاکت سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ تم فحاشی کرتے ہو حالانکہ تم دیکھ چکے ہو پچھلی قوموں کا انجام،کہ کیسے اللہ پاک نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا، یا اس کی قباحت تم بھی دیکھ رہےہو پھر بھی یہ کام کرتے ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(54) ترجمہ کنزالعرفان:اور لوط کو یاد کروجب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا کام کرتے ہوحالانکہ تم دیکھ رہے ہو۔(پارہ19،سورہ نمل،آیت54)

(4) ان معاملات میں اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے فحاشی کے کاموں کے متعلق اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت کی، کیونکہ اللہ پاک کو فحاشی پسند نہیں اور اللہ پاک نے ان کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:فَاتَّقُوا اللّٰهَ ترجمہ کنزالعرفان: تو اللہ سے ڈرو۔ (پارہ12، سورہ ھود،آیت78)

(5) مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: جب حضرت لوط علیہ السلام کے گھر فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تو انکی قوم دوڑ کر خوشی خوشی آئی تاکہ ان سے بد فعلی کرسکیں تو حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(67)قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69)ترجمہ کنزالعرفان:اور شہر والے خوشی خوشی آئے۔ لوط نے فرمایا: یہ میرے مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو ۔اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔(پارہ14،سورہ حجر،آیت67،68،69)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نافرمانی والے کاموں سے بچائے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔


نصیحت سے مراد ترغیب و ترہیب ہے یعنی کسی کام کو کرنے کی ترغیب دینا اور کوئی کام کرنے سے ڈرانا۔

لوگوں کو وعظ و نصیحت اس لیے کی جاتی ہے تاکہ وہ فلاح پا سکے ہمارا پیارا مذہب دین اسلام ہمیں اسی بات کا درس دیتا ہے چنانچہ قرآن پاک میں فرمانے باری تعالیٰ ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجمہ کنزالایمان:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ (پ 14،النحل،125)

اللہ پاک نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے،ان کو وعظ و نصیحت فرمانے کے لیے اور ان تک اپنے احکامات پہنچانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا ان کی رہنمائی کے لیے اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام کو شہر سدوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تاکہ انہیں دین حق کی دعوت دیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ حضرت لوط علیہ السلام جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ اپنے وقت کے بد ترین گناہوں،بری عادات اور قابلِ نفرت افعال میں مبتلا تھی ان کا بڑا اور قبیح ترین جرم مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا تھا یہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت سے جاتے تھے۔ یہ وہ کام تھا جو اس قوم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا ۔حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو مختلف مواقع پر مختلف نصیحتیں فرمائیں جن کا تذکرہ قرآن پاک میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ عزوجل سے ڈرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)ترجمہ کنزالایمان:جب کہ اُن سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا کیا تم ڈرتے نہیں بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پ19، الشعرآء: 161تا 163)

(2) بد فعلی سے روکنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو بد فعلی سے روکنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱) ترجمۂ کنزالایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہاکیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔ (پ 8،الاعراف:80، 81)

(3) قوم کی بیٹیوں کے حوالے سے نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی بیٹیوں کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِؕ-وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِؕ-قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْؕ-اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی آئی اور انہیں آگے ہی سے بُرے کاموں کی عادت پڑی تھی کہا اے قوم یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے ستھری ہیں تو اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں۔ (پ12،ھود: 78)

(4) مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷) قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِۙ(۶۸) وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(۶۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں مجھے فضیحت نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (پ 14،الحجر:67، 69)

حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو کئی بار وعظ و نصیحت کی مگر انہوں نے اس میں شک کیا اور اس کو جھٹلا دیا یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ان پر عذاب نازل فرما دیا۔