کلیم
اللہ چشتی عطاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی
لاہور)
اولاد اللہ
پاک کی وہ عظیم نعمت ہے جن کی خاطر والدین سخت گرمی و سردی کو دامن گیر لائے بغیر
محنت مزدوری کرتے ہیں یہی اولاد اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور
ہوتی ہے اس کی اگر صحیح معنوں میں تربیت اور ان کے حقوق ادا کئے جائیں تو یہ دنیا
میں اپنے والدین کیلئے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ بچپن میں
ان کے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور ہوگی۔ اگر ان کی تربیت صحیح خطوط پر
نہیں ہوگی تو یہ سہارے کی بجائے وبال ہی بنے گی۔ آئیے! تربیتِ اولاد کے حوالے سے
کچھ حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ادائیگیِ حقوق کی وجہ سے اولاد دنیا و آخرت میں
کامیاب و کامران ہو سکے۔
(1)سب
سے پہلا حق: اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ اولاد کا سب سے پہلا حق جو اس کی
پیدائش سے بھی پہلے ہے کہ آدمی کسی رذیل کم قوم (نیچ ذات) عورت سے نکاح نہ کرے کہ
بُری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔(اولاد کے حقوق، ص15)
(2)تمام
بچوں سے مساوی سلوک: امامِ اعظم
ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس بات میں کوئی بُرائی نہیں کہ اولاد میں
سے کسی کو فضیلتِ دین کی وجہ سے ترجیح دی جائے ہاں اگر دونوں برابر ہوں تو ان میں
سے کسی کو ترجیح دینا مکروہ ہے۔(الخانیہ،2/290)
(3)نیک
کاموں میں مدد: والدین کو چاہئے کہ
ہمیشہ اپنی اولاد کو نیک کاموں کی ترغیب دے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر ان کی
مدد کریں جس طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک
اس باپ پر رحم فرمائے جو اپنی اولاد کی نیک کام پر مدد کرتا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ،
6/101، حدیث:1)
(4)ادب
سکھانا: حدیثِ مبارکہ میں ہے: باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے اچھی
طرح ادب سکھائے۔
(دیکھئے:شعب
الايمان،6/400، حديث: 8658)
(5)ساتویں
دن سے لے کر 16سال کی عمر تک مختلف حقوق: بچے کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق
کیا جائے (یعنی سر کے بال اتارے جائیں)۔(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ، 5/532، حدیث:1،
2) سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دے۔(دیکھئے: اولاد کے حقوق، ص21) 10سال کی عمر
میں بستر الگ کر دے، اسی عمر میں مار کر نماز پڑھائے، جوان ہو جائے تو شادی کر دے،
شادی میں قوم، دین، سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔(دیکھئے: اولاد کے حقوق،ص26)
پیارے اسلامی
بھائیو! یہ اولاد ایک گرین شاخ کی طرح ہے جس کی سمت آدمی اپنی مرضی سے تبدیل کر
سکتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد یہ ایک بانس کی صورت اختیار کر جائے گی جس کو سیدھا
کرنے کی کوشش سے یہ ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ اگر ہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں
گے اور انہیں نماز روزہ اور اس کے علاوہ دیگر احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کا پابند
بنائیں گے تو یہ اولاد دنیا میں بھی ہمارے لئے راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی
اور ہمارے مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے ایصالِ ثواب اور دُعائے خیر کرکے آخرت میں
بھی بخشش کا سامان ہو گی۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ والدین کو اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم