سید علی
شاہ (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)
جس طرح انسان
کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور مخلوقات میں افضل ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح اس کے
حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے جدا گانہ ہیں ۔ ان ذمہ داریوں میں
سے اولاد کی تربیت اور حقوق بھی ہیں، جس کا ادا کرنا انسان پر فرض ہے۔ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح
اولاد کے والدین پر حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا
حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
(1)بعد
از پیدائش حقوق :بچے کی پیدائش کے
بعد جو حقوق اسلام کی طرف سے ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
حق زندگی: قبل از اسلام لوگ اپنی اولاد کو معاشی تنگی اور
مذہبی عقیدگی کی بنا پر معبودوں کیلئے
قربان کیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت نے اولاد کو حق زندگی عطا کرتے ہوئے قتل کو قانونی
جرم قرار دیا۔ خواہ محرکات معاشی ہوں یا مذہبی ۔ معاشی تنگدستی کی بنا پر اولاد کے
قتل کو روکتے ہوئے قرآن کریم ان الفاظ میں حکم دیتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم
تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے بے شک انکا قتل بڑی خطا ہے ۔ (سورۃ
بنی اسرائیل آیت نمبر 31)
(2)حق
رضاعت: بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں
جس خوراک کا محتاج ہوتا ہے اس کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی صورت میں کیا۔
قرآن مجید میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس
اس کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اور
جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھاجائے گا مگر اس کے مقدور
بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور
نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے ، یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی
اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس
پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ
چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ
پلواؤ تو بھی تم پر مُضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں
ادا کردو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (سورۃ
البقرہ، آیت نمبر: 233)
(3)حق
مساوات: بچوں کے بنیادی حقوق میں
سے اولاد کے مابین مساوات اور عدل قائم کرنا بھی ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے
ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا :میں نے
اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ حضور علیہ
السّلام نے فرمایا : کیا تم نے
اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے ؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے
لو۔ (صحیح
بخاری : صفحہ نمبر 2446)
(4)تربیت:
بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق
مختلف انداز سے حضور نے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں،
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو
جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اسے
مارو، اور دس سال کی عمر میں انہیں الگ الگ سلایا کرو“ (ابو داؤد: صفحہ نمبر 495)