محمد
ابوبکر مدنی (درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اسلام ایک
آفاقی دین ہے جس کے دامن میں زندگی کے ہر حوالے سے مکمل باضابطہ رہنمائی موجود ہے
۔جب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو اس نے باپ پر بیٹے کے حوالے سے جو حقوق عائد
ہوتے ہیں ان کو بھی بیان کیا تاکہ ان حقوق پر عمل پیرا ہو کر وہ کامیاب
باپ بننے کے ساتھ ساتھ اخروی سعادتوں سے بھی بہرہ ور ہو سکے ۔ ذیل میں کچھ اولاد
کے کچھ حقوق بیان کئے جارہے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
(1)
اچھے نام رکھنا: بچے کی پیدائش کے
بعد اس کا پہلا حق یہ ہے کہ اسکا اچھا نام رکھا جائے۔ اچھے نام رکھنا بچے کی شخصیت
پر بھی اثر انداز ہو گا اور اچھا نام اس کیلئے باعثِ سکون بھی ہو گا ۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے
جاؤ گے ۔ چنانچہ نام اچھے رکھا کرو (سننِ ابی داؤد ،کتاب الادب،حدیث:4948)
(2)
زندگی کی حفاظت: اولاد کا والدین
پر بنیادی حق یہ بھی ہے کہ انکی زندگی کی حفاظت کریں، زمانہ جاہلیت کی طرح ان کو مفلسی کے ڈر سے قتل
نہ کریں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَقْتُلُـوْۤا اَوْلَادَكُمْ
خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ
خِطْاً كَبِیْرًا(31) ترجمہ کنزالایمان:اور
اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمہیں بھی اور انہیں بھی روزی دیں گے
بیشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔(بنی اسرائیل: 31)
(3)
اچھے آداب سکھانا: والد پر بچے کا بنیادی حق یہ ہے کہ اسے اچھے آداب سکھائے
۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اپنی اولاد کا اکرام کرو اور
انہیں اچھے آداب سکھاؤ ۔ (ابن ماجہ، 179/4،حدیث:3671)
(4)
مساوات کا حق: اولاد کے حقوق میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ خاطر
رکھا جائے ۔اگر ایک کو کپڑے خرید کر دیئے تو دوسرے کو بھی خرید کر دیں ، اگر ایک
کو کوئی چیز تحفہ دی تو دوسرے کو بھی دیں نیز ہر معاملے میں مساوات کا پہلو ملحوظ
خاطر رکھا جائے ۔ اس حوالے سے اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے:اپنی اولاد کو برابر دو ، اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں
کو دیتا۔ (المعجم الکبیر ،ج280/11، حدیث:11997)
(5)
شادی میں جلدی کرنا: جب اولاد بالغ
ہو جائے تو والدین پر لازم ہے کہ ان کی شادی کروانے میں جلدی کریں ۔ اگر معاذاللہ
وہ گناہوں میں پڑ گئے تو اس کا گناہ انکو بھی برابر ملے گا۔ چنانچہ سید المرسلین
،خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کسی کے ہاں بیٹا ہو ، وہ اسکا
اچھا نام رکھے ، اچھی پرورش کرے اور جب وہ (بچہ/ بچی) بالغ ہو تو نکاح کردے اگر اس
(والد) نے ایسا (نکاح) نہ کیا اور اس (بچے/ بچی) نے گناہ کردیا تو یہ گناہ اس کے
والد کے سر پر ہوگا ۔ (مشکوٰۃ شریف، کتاب
النکاح، جلد 939/2، حدیث 3138 مطبوعہ بیروت )
اللہ کریم ہمیں
اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدنا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم