از قلم:مولانا سلمان بٹ عطاری
مدنی
2024ء کے نومبر کی 17 تاریخ تھی، عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ظہر کی نماز ادا کی جا چکی تھی، دن کے دو بج رہے تھے
اور نگرانِ مرکزی مجلس شوریٰ حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری کو ” قافلہ اجتماع“
میں سنتوں بھرے بیان کے لئے نواب شاہ جانا تھا ۔وقتِ مقررہ پر نگرانِ
شوریٰ سفر کے لیے تیار تھے۔جن اسلامی بھائیوں کو ساتھ جانا تھا وہ بھی تیاری مکمل
کر چکے تھے۔
تقریباً دو بج کر 30 منٹ پر مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی سے روانہ ہوئے۔ فراٹے بھرتی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اچانک
گاڑیوں کی رفتار سلو ہوئی اور پھر بریک لگ گئی، معلوم ہوا کہ روڈ بلاک ہے، کوشش کر
کے گاڑیوں کو وہاں سے روانہ کیا گیا اور سفر کو مکمل کرنے کی کوشش اور جستجو
دوبارہ شروع کر دی گئی ۔ ایک پٹرول پمپ پر رُک کر نماز عصر باجماعت ادا کی۔ہم ہالہ
پہنچ چکے تھے،اب یہاں سے آگے اپنی منزل
نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔روڈ زیر تعمیر تھا لہذا گاڑی کی رفتار سلو ہو چکی تھی، بہرحال وقت گزرتا جا
رہا تھا، راستے میں موجود پیڑ پودے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے
معلوم ہو رہے تھے۔جوں ہی نمازِ مغرب کا وقت شروع ہوا تو اب صرف ایک ہی فکر تھی اور وہ تھی
نماز کو وقت میں ادا کرنے کی۔ وقت مناسب پر نماز مغرب بھی باجماعت ادا کی گئی، اِ س
دوران نگرانِ شوری حاجی محمد عمران عطاری کے داماد محمد اویس عطاری بھی سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہو چکے تھے ۔وہ اپنے
گھر سے کچھ کھانا بنوا کر لائے تھے جسے نگرانِ شوریٰ اور آپ کے رُفقاء نے تناول کیا اور پھر سفر میں شریک
دیگر عاشقانِ رسول اور سیکیورٹی گارڈ کو
بھی اُسی کھانے میں شامل کر لیا گیا۔
سیکیورٹی گارڈ کو نگرانِ شوریٰ کے
ساتھ کھانے میں شریک دیکھ کر مجھے خلیفۂ
امیر اہل سنت حضرت مولانا حاجی ابو اُسید احمد عبید رضا عطاری مدنی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا انداز یاد آ گیا۔خلیفۂ امیر اہلِ سنّت کو دیکھا ہے کہ جو خود کھاتے ہیں وہ
گارڈ ذکو بھی کھلاتے ہیں۔ نگرانِ شوریٰ چونکہ ”فنا فی الشیخ“ کے مقام پر فائز
ہیں اِس لئے اپنے شیخ اور اُن کے جانشین کی پیروی کرتے ہوئے
آپ نے بھی اسی ادا کو ادا کیا ۔ نبی اکرم، نور مجسم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق کھانا کھلانا مغفرت کو واجب
کرنے والے کاموں میں سے ایک کام ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ محمد
اویس عطاری بھائی جو کھانا لے کر آئے تھے وہ بھی وافر مقدار میں تھا جو کہ تقریباً سبھی کو کفایت کر سکتا تھا۔ ہمیں بھی چاہئے کہ سفر میں شریک اپنے رُفقاء کو جہاں جہاں
ممکن ہو خیر خواہی میں شامل کر لینا چاہیے کہ اِس سے محبت بڑھتی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ
تعالیٰ کی رحمت ملتی ہے۔ رات کےسائے گہرے
ہوتے جا رہے تھے اور مدنی قافلہ اجتماع کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لہذا بلا تاخیر
وہاں موجود عاشقان رسول سے ملاقات کرنے کے بعد ہم نواب شاہ کی جانب روانہ ہوئے۔پٹرول
پمپ سے ہم نے گاڑی میں پیٹرول بھروایا اور
نگران ِشوریٰ کے ساتھ ساتھ روانہ ہو گئے۔
میرے دل میں نگران ِشوریٰ کی محبت مزید
بڑھ گئی جب میں نے دیکھا کہ آپ اپنے سفر کے وقت کو بھی کارِ خیر میں استعمال
کرتے ہوئے کبھی ذکرو اذکار میں مشغول ہیں تو کبھی مطالعہ فرما رہے ہیں۔الحمد للہ ہم نواب
شاہ پہنچ گئے، فورا ًنمازِ عشا باجماعت ادا کی،میں نے محسوس کیا کہ نگرانِ شوریٰ
سارے سفر میں باوضو ہیں ، اس کی جہاں دیگر برکات ہیں وہیں یہ بھی ہے
کہ نماز بروقت اور سہولت سے ادا کی جاسکے۔نگرانِ شوریٰ فریش ہوئے اور کھانا
تناول کرنے کے لیے اُس کمرے میں تشریف لائے جہاں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ آپ
نے ٹیبل کرسی پر 10 اسلامی بھائیوں کے
کھانے کا انتظام دیکھ کر کچھ یوں فرمایا : ”جو اسلامی بھائی آئے ہیں ان کے ساتھ ہی
دسترخوان پر کھانے کی ترکیب ہو تاکہ ان کی دل جوئی کا سامان بھی ہو سکے۔“میزبان
چونکہ آپ کے لیے علیحدہ سے انتظام کر چکے تھے اس لئے انہوں نے عرض کی: اُن اسلامی بھائیو ں کے ساتھ چائے کی ترکیب بنا لیں گے آپ ابھی یہیں کھانا تناول فرما لیجئے۔میزبان کو شرمندگی سے بچانا بھی مہمان کی ذمہ داری ہے لہذا آپ نے میزبان کا لحاظ رکھتے
ہوئے وہیں کھانا تناول فرمایا۔سنت کے مطابق دعا پڑھ کر ”یاواجد“ ذکر کے ساتھ کھانا کھایا اور برتن صاف کرنے
والی سنت پر بھی عمل کیا۔بعد ازاں عاشقان ِرسول کے ساتھ چائے پی اور پھر اجتماع
گاہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
اجتماع گاہ ہی نہیں بلکہ اُس گراؤنڈ کے اطراف کی گلیاں بھی عاشقانِ رسول سے بھری ہوئی تھیں۔عاشقانِ
رسول جوق در جوق تشریف لا رہے تھے، نگران
شوریٰ بیان کے لئے مقررہ وقت پر تشریف لے آئے۔ مدنی قافلوں کی افادیت، مسجدوں کی
آباد کاری ،علم دین حاصل کرنے ،حج وعمرہ کے مسائل سیکھنے کی ترغیب اور اخلاق و
کردار کی بہتری کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات
پر شاندار بیان ہوا جسے وہاں موجود عاشقانِ رسول کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ
مدنی چینل پر دنیا بھر کے عاشقانِ صحابہ و
اہلِ بیت نے دیکھا اور سنا۔ اجتماع صلوٰۃ و سلام پر ختم ہوگیا تھا
لیکن ریلوے گراؤنڈ میں موجود عاشقانِ
رسول تھے کہ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔خیر! نگران ِشوریٰ نے عاشقان رسول
سے اجازت لی اور واپس قیام گاہ تشریف لے آئے۔
قیام گاہ پر نگران ِشوریٰ نے سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کی، اُنہیں نیکی
کی دعوت دی ،فیضان مدینہ کراچی آنے کا ذہن دیا، عاشقانِ رسول سے ملاقات کی ،انہیں
دینی کاموں اور مدنی قافلوں کے اہداف دیئے۔آپ ابھی واپس کراچی کا قصد کرنے ہی والے تھے کہ آپ کے نواسے حنظلہ عطاری نے کہا:نانا ! آپ ہمارے گھر آئیں، پتا نہیں
آپ دوبارہ کب آئیں گے ۔
نگرانِ شوریٰ ایک مہربان اور شفیق نانا
بھی ہیں۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنایا جائے اور ہم سب جانتے
ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نواسوں سے بہت محبت کرتے تھے آپ بھی اتباع رسول میں ویسا انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔نگرانِ
شوریٰ اپنی گاڑی میں سوار ہوئے اور ڈرائیور سے کہا : اویس عطاری کے گھر جائیں گے۔
نواب شاہ آتے ہوئے حیدر آباد سے آپ کے
داماد ،دو نواسے حنظلہ عطاری اور
صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئے
تھے، واپس نواب شاہ سے حیدر آباد سفر کرنا تھا مگر حنظلہ عطاری گاڑی میں نہیں تھے، انہیں تلاش کیا تو معلوم ہوا
کہ وہ اپنے ابوجان کے ساتھ دوسری گاڑی میں موجودہیں۔ صدیق عطاری آپ کے ساتھ گاڑی میں
تھے، آپ نے صدیق عطاری سے پوچھا :بابا کے ساتھ جانا ہے یا میرے ساتھ ؟صدیق عطاری نے کہا: آپ کے ساتھ ۔ بس پھر کیا تھا حیدر
آباد کی جانب سفر شروع ہوا اور گاڑی روڈ
پر فراٹے بھرتی ہوئی سرپَٹ دوڑنے لگی ۔
نگرانِ شوری ٰکے ڈرائیورحنیف بھائی نے
اپنی جیب سے ڈرائی فروٹ نکال کر نگرانِ شوریٰ کو پیش کئے۔آپ نے وہ لفافہ پیچھے بیٹھے ایک اسلامی بھائی کو دیا اور کہا :خود
بھی کھائیں ،دوسروں کو بھی کھلائیں۔چنانچہ گاڑی میں موجود افراد نے ڈرائی فروٹ کھائے
اور اللہ پاک کی نعمت پر شکر ادا کیا۔نگرانِ شوریٰ اپنے نواسے، بیٹی،
داماد اور حاجی یعقوب صاحب کی دلجوئی کی خاطر حیدرآباد پہنچ گئے۔
آدھی رات گزر چکی تھی اور ہم حیدرآباد
پہنچ چکے تھے، ”حیدرآباد میمن سوسائٹی میں مریم مسجد ہے جہاں دعوت اسلامی کا سنتوں
بھرا ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے “ہم اُس مسجد
کے قریب سے گزرتے ہوئے حاجی یعقوب عطاری کے
گھر پہنچے۔ حاجی یعقوب عطاری اور اویس بھائی نے نگران ِشوریٰ کا استقبال کیا، آپ
گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ بعد ازاں ہمیں بھی ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا ،کچھ ہی دیر میں نگران ِشوری ٰبھی ہمارے پاس تشریف
لا چکے تھے، رات کا وقت تھا، گیس کی لوڈ شیڈنگ تھی لیکن ضیافت کے لیے کھانوں کا
بھرپور انتظام تھا۔ ماشاء
اللہ زبردست دسترخوان سجایا گیا،جس پر ہم انواع
و اقسام کی نعمتوں سے سیر ہو کر لطف اندوز
ہوئے۔ نگرانِ شوریٰ کے داماد محمد اویس عطاری بڑی محبت اور شوق سے نگرانِ شوریٰ کے ساتھ ساتھ دیگر مہمانوں کی بھی
مہمان نوازی کر رہے تھے۔کھانا کھانے سے پہلے کی دعائیں پڑھ کر سنت کے مطابق کھانا
کھانے کا سلسلہ رہا۔کھانے کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی گئی جس نے کھانے کا
مزہ دوبالا کر دیا۔
یہاں ایک بات جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ کہ نگرانِ شوریٰ کا انداز
دیکھا کہ آپ نیکی کی دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، نیکی کی دعوت دیتے
ہیں، نیکیوں کی ترغیب دلاتے ہیں،اب بھی ایسا ہی ہوا کہ کھانا کھانے سے پہلے آپ نے ترغیب دلائی کہ پیر
شریف شروع ہو چکا ہے لہذا پیر شریف کے روزے کی نیت بھی کی جا سکتی ہے۔پیر شریف کا
روزہ رکھنا نیک اعمال میں بھی شامل ہے اور نفلی روزے رکھنا بڑی سعادت مندی کی بات
ہے جس کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد اویس بھائی اور حاجی
یعقوب صاحب سے اجازت لے کر مہمان اپنی
سواریوں کے قریب آگئے۔وقت مناسب پر نگرانِ شوریٰ بھی گاڑی میں تشریف لائے اور واپس کراچی کا سفر
شروع ہو گیا۔
نگران ِشوریٰ سفر میں بھی وقت پرنماز کی
ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، حیدرآباد سے نکلتے ہوئے آپ نے کراچی میں نمازِ فجر
کے آخری وقت کے بارے میں معلومات لیں تاکہ بروقت نماز فجر ادا کی جا سکے۔ رات کا
آخری پہر تھا لیکن حنیف بھائی بڑی ہی جانفشانی اور توجہ کے ساتھ گاڑی چلا رہے تھے ۔اللہ کی رحمت سے ہم تقریباً چھ بجے مدنی
مرکز فیضان مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نگرانِ شوریٰ نے گاڑی سے اُترنے سے پہلے فرمایا:اگر حقِ صحبت
میں کسی قسم کی کوئی حق تلفی ہو گئی ہو تو میں معافی کا طلبگار ہوں، ہم نے نگرانِ
شوریٰ کا شکریہ ادا کیا اور اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
اللہ تعالی نگران شوری کی دینی خدمات
کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اللہ تبارک و تعالی اچھی باتیں سیکھنے
اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سفر کا خلاصہ
· نماز باجماعت
کا ممکنہ صورت میں اہتمام کیا جائے۔
· نماز کی ادائیگی
میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے۔
· سفر میں ذکر و اذکار جاری رکھا جائے۔
· فضول گفتگو سے
اجتناب کیا جائے۔
· شرکائے سفر کی
ممکنہ صورت میں دل جوئی کی جائے۔
· اپنے میزبان
کو شرمندگی سے بچایا جائے۔یعنی کوئی ایسا انداز اختیار نہ کیا جائے جس سے میزبان
شرمندہ ہو جائے۔
· نیکی کی دعوت
کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جا ئے۔
· دعوت اسلامی
کے دینی کاموں کی ترغیب دلائی جائے۔
· مسلمانوں سے
خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے۔
· اپنے عزیزو اقارب
اور رشتہ داروں کے لیے وقت نکالا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے۔
· بچوں بالخصوص
اپنے خاندان کے بچوں پر شفقت کی جائے۔
· چھوٹی چھوٹی
باتیں ”جن سے احساس اور محبت جھلکتا ہو“ یہ باتیں رشتوں کی مضبوطی اور دل میں خوشی داخل
کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
· بچوں کے اچھے
اور سلجھے ہوئے سسرال مل جانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
· اپنے ساتھ
رہنے والے لوگوں کو اس بات کا احساس نہ دلایا جائے کہ وہ حقیر ،ذلیل یا چھوٹے لوگ
ہیں۔
نوابشاہ میں ہونے والے اجتماع
کا بیان سننے کے لئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے