اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تشریف آواری
کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کے ظاہر وباطن کو پاک کرنا بھی ہےجیساکہ ابو
الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ
والسلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد دعا فرمائی جس
کی قبولیت کوقرآن کریم میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ
دعائے
ابراہیم:
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) (پ1، البقرۃ:129)
ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں
میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے
بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔
تفسیر خزائن
العرفان:
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ
دُعا سیّدِ انبیاء صلّی اللہ ُعلیہ وسلّم کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم خدمت
بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی کہ
یارب! اپنے محبو ب نبی آخر الزماں صلّی
اللہُ علیہ وسلّم کو ہماری نسل
میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر، یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی
نسل میں حضور کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا، اولادِ حضرت ابراہیم میں باقی انبیاء حضرت
اسحٰق کی نسل سے ہیں۔
میلاد
مصطفٰے کا بیان:
صدر الافاضل مزید فرماتے ہیں کہ سیِّد عالَم صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک
حدیث روایت کی کہ حضور نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’خَاتَمُ النَّبِیِّیْن‘‘ لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے پتلا کا خمیر ہورہا
تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ
ہوں، اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور
ان کے لئے ایک نور ساطع (پھیلتا ہوا نور) ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور اُن کے لئے
روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین
والآخرین محمد، 7/ 13، حدیث:3520) اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد
ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں
حضور سیِّدِ انبیاء محمد ِمصطفیٰ صلّی
اللہُ علیہ وسلّم کو مبعوث
فرمایا۔(خازن، بقرہ، تحت الآیہ:129، 1/ 91) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
عَلٰی اِحْسَانِہٖ۔(جمل و خازن)
تفسیر صراط
الجنان:
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صلَّی اللہُ علیہ
واٰلِہ وسلَّم کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ
بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پُر نور صلَّی اللہُ
علیہِ وسلَّم مومن جماعت میں، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے،
صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا
فرمائی، اُن کے نفسوں کا تزکیہ کیا اور اسرارِ الٰہی پر مطلع کیا۔
طہارت، طیب
اور تزکیہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی (دعا میں) اس
ترتیب سے اس طرف اشارہ ہے کہ بندے آیات قرآنیہ تلاوت کر کے، علم وحکمت سیکھ کر
بھی پاک نہیں ہو سکتے جب تک حضور کی نگاہ انہیں پاک نہ کرے اسی لئے تلاوت وغیرہ کے
بعد تزکیہ کا ذکر فرمایا اور اس تزکیہ کو حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی طرف منسوب کیا۔ خیال رہے کہ ’’ظاہری پاکی کو طہارت اور قلبی پاکی کو
طیب کہا جاتا ہے مگر جسمانی، قلبی، روحانی خیالات وغیرہ کی مکمل پاکی کو تزکیہ‘‘
کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی، 1/ 654)
دعائے
ابراہیمی کی مقبولیت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی جسے دوسرے پارے کے شروع میں ان الفاظ
میں بیان فرمایا۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
كَمَاۤ
اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ
یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا
لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ؕ(۱۵۱)۔(پ2، البقرۃ:151)
ترجمہ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں
سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور
تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
تفسیر
نعیمی:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں فرماتےہیں: سب سے بڑھ کر یہ کہ تم میں اپنا یہ بڑا پیغمبر بھیجا جو سر تا پا رحمَتِ الٰہی
ہیں۔ یوں تو ان کے تم پر لاکھوں احسان ہیں مگر پانچ احسان بالکل ظاہر: ایک یہ کہ
وہ تم تک رب کی آیتیں پہنچاتے ہیں، تمہیں پڑھ کر سناتے اور پڑھنا سکھاتے ہیں،
تمہارے الفاظ صحیح کراتے، تلاوت کے آداب بتاتے ہیں بلکہ اس کے لکھنے کی جانچ
بتاتے ہیں پھر تمہیں شرک، بت پرستی، کفر وگندے اخلاق، بدتمیزی، عداوت، آپس کے
جھگڑے، جدال، جسمانی گندگی غرض یہ کہ ہر ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک فرماتے ہیں
کہ عرب جیسے سخت ملک کو جو انسانیت سے گر چکا تھا اور جہاں باشندے انسان نما جانور
ہو چکے تھے ان کو عالَم کا معلم بنا دیا۔ بت پرستوں کو خدا پرست، رہزنوں کو رہبر،
شرابیوں کو نشَۂ محبت الٰہی کا متوالا، بےغیرتوں کو شرمیلا، جاہلوں کو عالِم اور
نہ معلوم کسے کسے کیا کیا بنا دیا غرض یہ کہ مخلوق کو خالق تک پہنچا دیا۔ (تفسیر نعیمی، 2/ 64)
نیز سورۂ آل عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کو ان
الفاظ میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
لَقَدْ مَنَّ
اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ
فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ
مُّبِیْنٍ(۱۶۴)۔(پ4، آل عمران :164)
ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں
میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انہیں پاک کرتا اور انہیں
کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
تفسیر صراط
الجنان:
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: عربی میں
مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ
انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ
مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر
مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سیِّدِ دو عالَم
صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی
وجود میں نہ آتے۔پیدائِشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ
معراج بھی ربُّ العالمین کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قَبرِ انور
میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے لب ہائے
مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں
محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم اپنا بستر
مبارک چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے
ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے
عالَم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں
گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری
کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے،
کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے
ہوں گے، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں
گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا،
ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے
سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے
باہر ہے۔
تفسیر نور
العرفان:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ
حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی تشریف آوری تمام نعمتوں سے اعلیٰ ہے کہ لفظ ’’مَنّ‘‘ قرآن
شریف میں اور نعمتوں پر ارشاد نہ ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام نعمتیں فانی ہیں اور
ایمان باقی، یہ ہی حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملا۔ تمام نعمتوں کو نعمت بنانے والے حضور ہیں۔ اگر ان
نعمتوں سے گناہ کئے جائیں تو وہ عذاب بن جاتی ہیں نیز ہاتھ پاؤں وغیرہ رب کے آگے
شکایت بھی کریں گے اور حضور صلّی اللہُ علیہ
وسلّم سفارش فرمائیں گے لہٰذا حضور نعمت مطلقہ ہیں۔ (نیز
یہ بھی) معلوم ہوا کہ پاکی صرف نیکیوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ
نیکیاں تو پاکی کے سبب ہیں۔ پاکی نگاہِ کرم مصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملتی ہے۔
نیکیاں تخم (بیج) ہیں اور حضور کی
نگاہِ کرم رحمت کا پانی۔ بغیر پانی تخم بیکار ہے جیسے کہ شیطان کی عبادات بیکار
ہوئیں لہٰذا کوئی متقی اور ولی حضور سے بےنیاز نہیں ہو سکتا۔
تفسیر
نعیمی:
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ تفسیر نعیمی میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضور
انور صلّی اللہُ علیہ وسلّم تاقیامت ہمارے جسموں کو شریعت کے پانی سے، دلوں کو طریقت کے پانی سے،
خیالات کو حقیقت کے پانی سے اور روح کو معرفت کے پانی سے پاک فرماتے ہیں اور پاک
فرماتے رہیں گے۔(تفسیر نعیمی، 4/ 317)
خلاصہ:
مذکورہ آیت مبارکہ میں میلاد مصطفٰے کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بیان
بھی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللہُ علیہ
وسلّم ظاہر وباطن کی
گندگی دور کر کے انسانوں کو طہارت وپاکیزگی عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری پاکیزگی کے لئے
وضو و غسل وغیرہ کے احکام اور اس کے طریقے سکھائے جبکہ باطنی گندگی سے طہارت کے
لئے باطنی بیماریوں کی تفصیل اور وضاحت بیان فرمائی جس پر عمل پیرا ہو کر انسان
اپنے ظاہر وباطن کو سنوار سکتا ہے۔ یاد رکھیئے! نماز پڑھنے کے لئے ظاہر کا پاک
ہونا ضروری ہے کہ نمازی کا بدن، لباس اور جس جگہ نماز پڑھ رہا ہے وہ نجاست غلیظ
وخفیفہ سے پاک ہو لیکن نماز کی قبولیت کے لئے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے کہ وہ تکبر،
خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ گندگیوں سے پاک ہو لہٰذا ظاہر کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطن کی
طہارت کا بھی اہتمام ہونا چاہیئے بلکہ باطنی طہارت کا زیادہ خیال رکھا جائےکیونکہ
لوگوں کی نظریں صرف ظاہر کو دیکھتی ہیں جبکہ اللہ پاک ظاہر کے مقابلے میں باطن پر
خاص نظر فرماتا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:
صرف ظاہر
نہیں باطن کو بھی سنوارو:
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ اللہ پا ک کے سب سے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ
یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُم یعنی اللہ پاک تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نظر
نہیں فرماتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف نظر فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، ص 1064، حدیث:
6543)
ربِّ کریم
کے دیکھنے سے مراد:
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اللہ پاک تمہاری صورتوں کی طرف
نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے ہاں تمہاری خوبصورتی وبدصورتی کا کوئی اعتبار نہیں اور
نہ ہی وہ تمہارے مال ودولت کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے کہ اس کے نزدیک مال ودولت کی کمی زیادتی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ تمہارے دلوں میں موجود یقین، سچائی،
اخلاص، ریاکاری، شہرت اور بقیہ اچھے و بُرے
اَخلاق کو دیکھتا ہے اور ’’اعمال دیکھتا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمہاری نیت
کو ملاحظہ فرماتا ہے کہ کس نیت سے کئے گئے پھر اس کے مطابق تمہیں اس کی جزا عطا
فرمائے گا۔ نہایہ میں ہے کہ یہاں ’’نظر‘‘ کا معنیٰ پسندیدگی یا رحمت ہے
کیونکہ کسی پر نظر رکھنا محبت کی دلیل ہے جبکہ نظر ہٹا لینا غضب ونفرت کی علامت۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/ 174، تحت الحدیث:5314 )
تقویٰ کس
طرح حاصل ہوتا ہے؟
حضرت ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہِ
علیہ اس کی شرح میں
فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ صرف ظاہری اعمال سے حاصل نہیں ہوتابلکہ دل
میں اللہ پاک کی عظمت، اس کے ڈر اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے جو کیفیت پیدا ہوتی
ہے اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (شرح مسلم
للنووی، جز16، 8/ 121)
ظاہر وباطن
کو شریعت کے مطابق رکھو:
مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی
شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث پاک میں ’’دیکھنے‘‘ سے مراد ’’کرم
ومحبت سے دیکھنا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو بھی دیکھتا ہے۔ جب اچھی
صورتیں اچھی سیرت سے خالی ہوں، ظاہر باطن سے خالی ہو (یعنی صرف
ظاہر اچھا ہو اور باطن برا)، مال صدقہ
وخیرات سے خالی ہو تو ربّ تعالیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھتا نیز حدیث شریف کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف
اعمال اچھے کرو اور صورت بُری بناؤ بلکہ صورت وسیرت دونوں ہی اچھی (یعنی
شریعت کے مطابق) ہونی چاہئیں۔ کوئی شریف آدمی گندے برتن میں اچھا کھانا
نہیں کھاتا، ربّ تعالیٰ صورت بگاڑنے والوں کے اچھے اعمال سے بھی خوش نہیں ہوتا۔
اگر صرف صورت اچھی ہو اور کردار برا ہو تو بھی نقصان اور اگر باطنی حالت درست اور
ظاہری شریعت کے خلاف تب بھی نقصان۔ (ملخص از مراٰۃ
المناجیح، 7/ 128)
لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ظاہر کو پاک صاف رکھتا ہے اس سے کہیں
زیادہ باطن کی پاکیزگی وصفائی کا خیال رکھے۔ تعجب ہے اس پر جو
مخلوق کی نظر میں اچھا بننے کے لئے ظاہر کو تو گندگی سے بچاتا ہے مگر دل جو ربِّ
کریم کی خاص تجلی کا مقام ہے اسے باطنی بیماریوں کے میل کچیل سے نہیں بچاتا۔ خیال رہے! باطنی بیماریوں کا شکار تو ایک فرد ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات پورے
معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
پس ہر
مسلمان کو چاہیئے کہ باطنی امراض سے دل کی حفاظت کا خاص خیال رکھے تاکہ اس میں
ایسے امراض داخل نہ ہوں جو دنیا وآخرت میں ہلاکت وبربادی کا باعث بنتے اور انسان
کو بےسکونی کا شکار بنائے رکھتے ہیں۔جیسے غصہ، کینہ اور حسد ان تینوں امراض کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے کہ غصے سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینہ
حسد کو لاتا ہے یوں یہ تینوں بیماریاں مل کر انسان کو تباہی وبربادی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔ اسی طرح ’’حب جاہ اور
ریاکاری‘‘ ایسی باطنی بیماریاں ہیں جن میں مبتلا شخص دل ہی دل میں خوش تو ہوتا ہے لیکن اسے احساس نہیں
ہوتا کہ وہ دھوکے کا شکار ہےاور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے بڑے نیک
اعمال اور مجاہدے کرنے کے باوجود وہ ان کے حقیقی فوائد سے محروم رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معاشرے
کو فتنہ وفساد کا شکار بننے سے بچانے کے لئے بزرگانِ دین ظاہر کے مقابلے میں باطن
کی اصلاح پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ بزرگانِ دین کا قرآن وحدیث کی
روشنی میں لکھا گیا اصطلاحی لٹریچر بھی اسی کی ایک کڑی ہے جو مجرب تریاق کا کام کرتی ہے، حضرت سیِّدُنا امام
محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ‘‘ اس
باب
میں ایک روشن مینار ہے جسے بزرگانِ دین نے اپنے مریدین کی تربیت کا نصاب بنایا۔دورِ حاضر کے ایک عظیم روحانی پیشوا شیخِ طریقت،
امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائے دامت برکاتہم العالیہ بھی وقتاً فوقتاً اپنے مریدین و متعلقین کو اسے پڑھنے کی ترغیب دلاتے رہتے
ہیں لہٰذا اپنے باطن کو سنوارنے لئے انسان
کو ایسی کتابوں کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیئے۔
باطنی
پاکیزگی کے لئے چند رہنما کتب:
(01)...بہار شریعت، حصہ16۔ (02)...احیاء العلوم(اردو) جلد:3۔ (03)...قوت القلوب۔ (04)...جہنم میں لے جانے والے اعمال۔ (05)...غیبت کی تباہ
کاریاں۔ (06)...دل کی سختی کے اسباب وعلاج۔ (07)...احیاء العلوم کا
خلاصہ۔ (08)...اچھے برے عمل۔ (09)...مکاشفۃ القلوب۔ (10)...تکبر۔ (11)...بدگمانی۔ (12)...ریاکاری۔ (13)...بغض وکینہ۔ (14)...منہاج العابدین۔ (15)...باطنی بیماریوں کی معلومات۔ (16)...جہنم کے خطرات۔ (17)...مختصر منہاج العابدین۔ (18)...76 کبیرہ گناہ۔ (19)...حرص۔ (20)...حسد۔ (21)...جہنم کے عذابات (حصہ اول ودوم)۔
نوٹ: یہ تمام کُتُب دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ
سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہیں نیز دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں،
مطالعہ کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کی
جاسکتی ہیں۔ خود بھی پڑہیئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ترغیب دلایئے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی کا
خیال رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
محمد عمران الٰہی عطاری مدنی
۱۳ ربیع الاول ۱۴۴۵ھ
2023/ 09/ 30
بروز ہفتہ