اللہ تبارک و تعالی نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں اپنے خاص بندوں یعنی انبیاء کرام علیہم ‏السلام کو مبعوث فرمایا جن کی بعثت کا مقصد لوگوں کو اخروی سعادتوں سے بہرہ ور کرنا اور جہنم سے دور کرنا ہے ‏اور ان کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے کر برے اخلاق سے بچانا ہے اور انہیں اللہ تعالی کی بندگی کی طرف بلانا ہے‏۔ ‏ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنا فریضۂ تبلیغ بخوبی سرانجام فرمایا ، ‏ انہی چنے ہوئے بندوں میں سے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام بھی ہیں ‏۔

مختصر تعارف: حضرت لوط علیہ السلام کا نام مبارک لوط ہے، ‏ جس کا ایک معنی قلبی محبت ہے اس کی وجہ یہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ سے بہت محبت فرماتے ہیں اور ‏قلبی شفقت کا اظہار فرماتے اس لیے آپ کا نام لوط رکھا گیا ۔ آپ علیہ السلام کا شجرہ نسب یہ ہے ‏: ‏”لوط بن ہاران بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغو بن فالغ بن غابر بن شالغ بن بن ارفخشد بن سام بن ‏نوح“‏

حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ‏ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرزمینِ ‏فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی ‏طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ ‏(سیرت الانبیاء373،74 بتغیر قلیل) ‏

آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خوب نیکی کی دعوت پیش کی اور انہیں مختلف نصائح کی رہنمائی فرمائی ‏ جن میں سے چند قرآنی نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں:

(1) کفر و شرک سے بچنا:حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے فرمایا کہ میں اللہ پاک کا رسول ہوں تو تم کسی کو بھی اللہ پاک کے ساتھ ‏شریک نہ کرو اس کے احکامات کا انکار بھی نہ کرو ‏۔ اس چیز کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ‏: كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَ(160)اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ترجمہ کنز العرفان ‏: لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں ‏تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ‏۔‏(سورہ الشعراء آیت 160,161,162)‏

(2) تقوی اختیار کرنا ‏: حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو تقوی اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ‏۔ چنانچہ ‏ قرآن مجید نے اس کو یوں حکایت کیا ‏۔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(163)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(164)‏ترجمہ کنز العرفان ‏: ‏ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر توصرف ربُّ العٰلمین ‏کے ذمے ہے۔ ‏(سورۃ الشعراء آیت نمبر 163،164)‏

(3) گناہوں سے اجتناب‏:آپ علیہ السلام کی قوم بہت سارے گناہوں مبتلا تھی فحش معاملات کرنا وغیرہ ‏ آپ نے اس حوالے سے بھی نصیحت فرمائی ‏، قرآن مجید میں ہے ‏: لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(80)‏ ‏ ترجمۂ کنز العرفان: اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا :کیا تم وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی ‏نے نہیں کی۔‏(سورہ اعراف آیت نمبر: 80 )‏

(4) بدکاری سے منع فرمایا: آپ علیہ السلام کی قوم جن قبیح و شنیع افعال کی مرتکب تھی ان میں سے ان کے مردوں کا مردوں کے ساتھ بد ‏فعلی کرنا بھی تھا ‏ آپ علیہ السلام نے اس حوالے سے بھی اپنی قوم کو وقتاً فوقتاً تربیت و نصیحت فرمائی ‏

قرآن مجید میں ہے: اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ ‏تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ ‏مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(29)قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ(30)‏ ‏ ترجمۂ کنز العرفان: کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کو آتے ‏ہو تو اس کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہا: اگر تم سچے ہوتوہم پر الله کا عذاب لے آؤ۔ (لوط نے) عرض کی، ‏اے میرے رب!ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔‏(سورہ العنکبوت 28، 29،30)‏

اللہ پاک ہم سب کو۔ بھی ان شنیع افعال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔