احمد رضا شاہد
(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ اپر مال
روڈ لاہور پاکستان )
اللہ تبارک و
تعالی نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں اپنے خاص بندوں یعنی انبیاء
کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا جن کی بعثت کا مقصد لوگوں کو اخروی سعادتوں سے
بہرہ ور کرنا اور جہنم سے دور کرنا ہے اور ان کو اچھے اخلاق کی تعلیم دے کر برے
اخلاق سے بچانا ہے اور انہیں اللہ تعالی کی بندگی کی طرف بلانا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنا فریضۂ
تبلیغ بخوبی سرانجام فرمایا ، انہی چنے
ہوئے بندوں میں سے حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام بھی ہیں ۔
مختصر
تعارف: حضرت لوط علیہ السلام کا
نام مبارک لوط ہے، جس کا ایک معنی قلبی
محبت ہے اس کی وجہ یہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ سے بہت محبت فرماتے ہیں اور
قلبی شفقت کا اظہار فرماتے اس لیے آپ کا نام لوط رکھا گیا ۔ آپ علیہ السلام کا
شجرہ نسب یہ ہے : ”لوط بن ہاران بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغو بن فالغ بن
غابر بن شالغ بن بن ارفخشد بن سام بن نوح“
حضرت لوط عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھتیجے ہیں ، جب آپ کے چچا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے شام کی طرف
ہجرت کی تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرزمینِ فلسطین میں قیام فرمایا اور حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اردن میں اُترے۔ اللہ تعالیٰ
نے آپ کو اہلِ سُدُوم کی طرف مبعوث کیا، آپ اِن لوگوں کو دینِ حق کی دعوت دیتے
تھے اور فعلِ بدسے روکتے تھے۔ (سیرت
الانبیاء373،74 بتغیر قلیل)
آپ علیہ
السلام نے اپنی قوم کو خوب نیکی کی دعوت پیش
کی اور انہیں مختلف نصائح کی رہنمائی فرمائی جن میں سے چند قرآنی نصیحتیں بیان کی
جاتی ہیں:
(1)
کفر و شرک سے بچنا:حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے فرمایا کہ میں اللہ پاک کا
رسول ہوں تو تم کسی کو بھی اللہ پاک کے ساتھ شریک نہ کرو اس کے احکامات کا انکار
بھی نہ کرو ۔ اس چیز کو قرآن پاک میں یوں
بیان کیا گیا : كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَ(160)اِذْ قَالَ لَهُمْ
اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(161)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ ترجمہ کنز العرفان : لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے ان
کے ہم قوم لوط نے فرمایا :کیا تم نہیں ڈرتے ؟ بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول
ہوں ۔(سورہ الشعراء آیت 160,161,162)
(2)
تقوی اختیار کرنا : حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو تقوی اختیار
کرنے کی نصیحت فرمائی ۔ چنانچہ قرآن مجید
نے اس کو یوں حکایت کیا ۔ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوْنِ(163)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ
اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(164)ترجمہ کنز العرفان : تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا
اجر توصرف ربُّ العٰلمین کے ذمے ہے۔ (سورۃ الشعراء آیت نمبر 163،164)
(3)
گناہوں سے اجتناب:آپ علیہ السلام
کی قوم بہت سارے گناہوں مبتلا تھی فحش معاملات کرنا وغیرہ آپ نے اس حوالے سے بھی
نصیحت فرمائی ، قرآن مجید میں ہے : لُوْطًا اِذْ قَالَ
لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ
الْعٰلَمِیْنَ(80)
ترجمۂ کنز العرفان: اور (ہم نے) لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا :کیا تم
وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہیں کی۔(سورہ اعراف آیت
نمبر: 80 )
(4)
بدکاری سے منع فرمایا: آپ علیہ السلام کی قوم جن قبیح و شنیع افعال کی
مرتکب تھی ان میں سے ان کے مردوں کا مردوں کے ساتھ بد فعلی کرنا بھی تھا آپ علیہ
السلام نے اس حوالے سے بھی اپنی قوم کو وقتاً فوقتاً تربیت و نصیحت فرمائی
قرآن مجید میں
ہے: اَىٕنَّكُمْ
لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ
الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا
بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(29)قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ
عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ(30) ترجمۂ کنز العرفان: کیا
تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور راستہ کاٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کو
آتے ہو تو اس کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا مگر یہ کہا: اگر تم سچے ہوتوہم پر الله
کا عذاب لے آؤ۔ (لوط نے) عرض کی، اے میرے
رب!ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔(سورہ العنکبوت 28، 29،30)
اللہ پاک ہم
سب کو۔ بھی ان شنیع افعال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔