آپ علیہ السّلام کا نام مبارک ”لوط“ ہے جس کا ایک معنی ”قلبی محبت“ بنتا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ سے متعلق منقول ہے کہ حضرت ‏ابراہیم علیہ السّلام آپ سے بہت محبت فرماتے اور قلبی شفقت کا اظہار فرماتے تھے اس لئے آپ علیہ السّلام کا نام ”لوط“ رکھا گیا۔ حضرت ‏لوط علیہ السّلام حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بھتیجے تھے اور شجرہ نسب کچھ یوں ہے: لوط بن ہاران بن تارخ بن ناحور بن ساروع بن ارغو ‏بن فالغ بن غابر بن شالغ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السّلام۔ لیکن ایسے شجر و نسب میں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ قطعی ‏نہیں ‏ہوتے۔ ممکن ہے کہ درمیان میں بہت سے افراد کے نام رہ گئے ہوں۔(سیرت الانبیاء،ص 374)‏

نصیحت کے لغوی معنیٰ ”اچھی صلاح، نیک مشورہ“ کے ہیں۔ اسی کا ایک دوسرا لفظ ہے نصیحت آمیز یعنی عبرت دلانے والی ‏بات۔(فیروز اللغات، ص 1430)‏

نصیحت قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی بھی۔ لوگوں کو اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ باتوں کی طرف بلانے اور ‏ناپسندیدہ باتوں سے بچانے اور دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ وعظ و نصیحت بھی ہے۔ وعظ و نصیحت دینی، دنیوی، ‏اخلاقی، روحانی، ‏معاشی اور معاشرتی زندگی کیلئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے طبیعت خراب ہونے کی صورت میں دوا ضروری ہے۔ یہی وجہ ‏ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام اپنی قوموں کو وعظ و نصیحت فرماتے رہے، حضرت لوط علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو مختلف مواقع پر ‏مختلف انداز میں نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:‏

‏(1)اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت: حضرت لوط علیہ السّلام اپنی قوم اہلِ سدوم کے پاس رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں اللہ ‏پاک سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی قراٰنِ مجید میں آپ علیہ السّلام کی نصیحت کا ذکر کچھ یوں ہے:﴿اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲) فَاتَّقُوا اللّٰهَ ‏وَاَطِیْعُوْنِۚ(۱۶۳)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔‏(پ 19، ‏الشعرآء:162، 163)‏

‏(2)بد فعلی پر قوم کو نصیحت:آپ علیہ السّلام نے اُن لوگوں کی سب سے قبیح عادت پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حلال عورتوں ‏‏(بیویوں) کو چھوڑ کر مَردوں کے ساتھ بد فعلی کرتے ہو تم لوگ حد سے بڑھ چکے ہو، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ ‏الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۵) وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ(۱۶۶)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا مخلوق میں مَردوں ‏سے بدفعلی کرتے ہو اور چھوڑتے ہو وہ جو تمہارے لیے تمہارے رب نے جوروئیں (بیویاں) بنائیں بلکہ تم لوگ حد سے بڑھنے والے ‏ہو۔(پ 19، الشعرآء:165، 166)‏

‏(3)دنیوی نفع کے بغیر قوم کو تبلیغ و نصیحت: حضرت لوط علیہ السّلام نے قوم کو تبلیغ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: یاد رکھو کہ میں اس ‏تبلیغ و تعلیم پر تم سے کوئی اُجرت اور دنیوی منافع کا مطالبہ نہیں کرتا، میرا اجر و ثواب تو صرف رب العلمین کے ذمۂ کرم پر ‏ہے۔﴿وَمَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۶۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت ‏نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ ‏(پ 19، الشعرآء: 164)‏

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی مبارک نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے ‏اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالا مال فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏