ہمارا اسلام کتنا پیارا ہے کہ ہر شخص کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے والدین ہوں یا اولاد رشتہ دار ہوں یا پڑوسی سب کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے ہر ایک کو اس کا حق دلاتا ہے حضور ﷺ کی ولادت سے پہلے بیٹے بیٹیوں میں فرق کیا جاتا تھا بیٹے کو باعزت رکھا جاتا تھا جبکہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن جب حضور ﷺ نے بیٹےاور بیٹی میں فرق ختم کیا تو بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا اسی طرح نہ صرف بیٹے کے حق فراہم کیے بلکہ بیٹی کو بھی اس کے حقوق دیئے تو اس طرح اولاد کے حقوق کو پیش نظر رکھا گیا۔ دین اسلام نے اولاد کے بہت سے حقوق بیان کیے جن میں سے چند تحریر کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

1۔بیٹا اور بیٹی عام طور پر مسلمان ہونے پھر خاص پڑوسی ہونے پھر قریبی رشتہ داروں نے اور پھر بالخصوص اسی کے کنبہ میں ہونے کی وجہ سے باپ کی سب سے زیادہ خصوصی توجہ کے حقدار ہیں۔

2۔جب بیٹے یا بیٹی کی پیدائش ہو تو سب سے پہلے ان کے کان میں اذان دی جائے تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔

3۔اپنے بچے کا نام رکھیں یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی نام رکھا جائے اگر کچے بچے کا نام نہ رکھا تو وہ اللہ کے یہاں شاکی ہوگی۔اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں حضور ﷺ نے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور برے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

4۔بیٹا یا بیٹی ہو دونوں کے ساتھ برابر سلوک کریں کھانے میں پہنانے میں تعلیم میں یہاں تک کہ پیار کرنے میں بھی برابر کا سلوک کریں بہتر یہ ہے کہ بیٹی کو چیز دینے میں پہل کریں کیونکہ بیٹیوں کے دل چھوٹے ہوتے ہیں۔

5۔بیٹیوں کو سلائی کڑھائی کھانا پکانا وغیرہ سکھائیں جوان ہو جائیں تو گھر میں لباس و زیور سے راستہ کریں کہ نکاح کے پیغام رغبت کے ساتھ آئیں اور جب کفو ملے تو دیر نہ کریں بیٹی کی اچھی تربیت ہی سے معاشرہ ترقی کرتا ہے بیٹی کو سورۃ نور کی تعلیم دیں بیٹی رحمت بنا کر بھیجی گئی ہے اسے رحمت ہی سمجھا جائے نہ کہ زحمت۔