پیاری اسلامی بہنو! یقیناً والدین کے حقوق نہایت
اعظم و اہم ہیں کہ اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی میں انسان تمام زندگی مصروف عمل
رہے تب بھی ان کے حقوق کی ادائیگی سے کما حقہ سبکدوش نہیں ہو سکتا کیونکہ والدین
کے حقوق ایسے نہیں کہ چند بار یا کئی بار ادا کر دینے سے انساں بری الزمہ ہو جائے۔
لیکن جہاں شریعت مطہرہ نے والدین کی عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے
ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا وہیں والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق گنوائے
ہیں۔
(1)اولاد کا نام رکھنے كا حق اولاد کا برا نام نہ
رکھیں کہ بد فال،بد ہے(کہ برا شگون برا ہے) عبداللہ، عبدالرحمن، احمد،حامد وغیرہ یا
انبیاء، اولیاءیا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ
موجب برکت ہے۔ خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچے کے دنیا
اور آخرت میں کام آتی ہے۔
نام محمد اور احمد کی برکات: حضرت
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس کے لڑکا
پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسکا نام
محمد رکھے،تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ ارشاد
فرماتے ہیں: روز قیامت دو شخص اللہ رب العزت کے حضور کھڑے کئے جائیں گے حکم ہو گا
انہیں جنت میں لے جاؤ ،عرض کریں گے الہٰی! ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے ہم
نے تو کوئی کام جنت کا نہیں کیا؟اللہ پاک فرمائے گا: جنت میں جاؤ میں نے قسم ارشاد
فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا۔ (مسند الفردوس، 2/503، حدیث:8515)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ
سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس دسترخوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہو،تو اس جگہ
پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائے گی۔ (مسند الفردوس، 2/323،
حدیث: 6525)
جب محمد نام رکھیں تو اس کی تعظیم و تکریم کریں۔
(2)بچے کا نفقہ: بچے
کا نفقہ (بچے کے کھانے، پینے، کپڑے وغیرہ کے اخراجات اور)اس کی حاجت کے سب سامان
مہیا کرنا خود واجب ہے جن میں حفاظت بھی داخل ہے۔ بچے کو پاک کمائی سے پاک روزی دے
کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں لاتا ہے۔ نیا میوہ نیا پھل پہلے انہی کو دے کہ وہ
بھی تازے پھل ہیں نئے کو نیا مناسب ہے۔ کبھی کبھی حسب استطاعت انہیں شیرینی وغیرہ
کھانے، پہننے کی اچھی چیز جو کہ شرعاً جائز ہے دیتا رہے۔
نفقہ کہ باپ پر واجب ہو اور وہ نہ دے تو حاکم جبراً
مقرر کرے گا، نہ مانے تو قید کیا جائے گا حالانکہ فروع (اولاد) کے اور کسی دین میں
اصول(یعنی والدین)محبوس نہیں ہوتے۔ فتاویٰ شامی میں ذ خیرہ کے حوالے سے نقل کیا
ہے: والد اپنے بیٹے کے قرض کے سلسلے میں قید نہیں کیا جا سکتا خواہ سلسلہ نسب اوپر
تک بلحاظ باپ اور نیچے تک بلحاظ بیٹا چلا جائے البتہ نان و نفقہ نہ دینے کی صورت
میں باپ کو قیدکیا جائے گا; کیونکہ اس میں چھوٹے کی حق تلفی ہے۔
(3)برابری کا حق: اپنے
چند بچے ہوں تو جو چیز دیں سب کو برابر و یکساں دیں، ایک کو دوسرے پر بے فضیلت
دینی ترجیح نہ دے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے: حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسے دوسری
اولاد پر ترجیح دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو، لیکن اگر سب برابر ہیں تو پھر
ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (الخانیۃ، 2/290)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:اگر بیٹا حصول علم میں
مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں
کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتاویٰ ہندیہ، 4/391)
(4) علم دین خصوصاً وضو، غسل، نمازو روزہ کے
مسائل،توكل، قناعت، زہد اخلاص، تواضع، امانت، صدق عدل، حیا، سلامت صد رولسان وغیرہ
اور خوبیوں کے فضائل(پرهائے نیز) حرص و طمع، حب دنیا(دنیا کی محبت)،حب جاه، ریا، عجب،
تکبر، خیانت، کذب، خیانت، فحش، غیبت، حسد،کینہ وغیرہ ہا برائیوں کے رذائل
پڑھاے۔حضور پر نور ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے اصل ایمان و عین ایمان ہے۔
اور حضور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و عظمت کی تعلیم کرے کہ یہ
باتیں ایمان کی سلامتی اور بقا کا ذریعہ ہیں۔عقائد اسلام و سنت سکھائے کہ لوح سادہ
فطرت اسلامی و قبول حق پر مخلوق ہے (اس لئے کہ بچہ فطرتا دین اسلام اور حق بات
قبول کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے) اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ قرآن مجید پڑھائے اور بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔
(5)وراثت کا حق: اولاد
کو میراث سے محروم نہ کیا جائے جیسے بعض لوگ اپنے کسی وارث کو (میراث)نہ پہنچنے کی
غرض سے کل جائیداد دوسرے وارث یا کسی غیر کے نام لکھ دیتے ہیں۔اپنے انتقال کے بعد
بھی ان کی فکر رکھیں یعنی(زندگی)میں کم سے کم دو تہائی ترکہ چھوڑ جائے،ثلث(ایک
تہائی مال) سے زیادہ خیرات نہ کرے۔
دین
اسلام وہ واحد دین ہے جس میں ہر بنی نوع انسان کے حقوق کو واضح فرمایا گیا ہے انہی
میں سے اولاد کے حقوق بھی ہیں۔ اولاد والدین کا قیمتی اثاثہ ہیں لہذا شریعت مطہرہ
کی طرف سے والدین پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جنہیں مستحسن طریقے سے پورا کرنا
ضروری ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28،
التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور
فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں
حکم دیا جاتا ہے۔
آئیے
اولاد کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:
1) دینی تعلیم و تربیت: اولاد کا سب سے اہم و مقدم حق
ان کی دینی تعلیم و تربیت ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم اور ارکان کا جاننا ہر مسلمان
پر فرض ہے۔ تربیت اولاد کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی
تعلیم دو: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اورقرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)
مزید
فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر
مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کر دو ان کے درمیان خواب گاہوں میں۔ (ابو
داود، 1/208، حدیث: 494)
2) ادب سیکھانا: اولاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے بڑوں
کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا ذہن دیا جائے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: اولادکا
والد پر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (شعب الایمان، 6/400،
حدیث: 8658)
ایک
جگہ مزید فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا، جو اچھے ادب سے بہتر
ہو۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)
مشہور
مفسر قرآن ،حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے
تحت فرماتے ہیں: اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار،متقی،پرہیزگار بنانا ہے۔ اولاد کے
لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے۔ ماں باپ
کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں، انہیں دیندار بنا کر
جائیں، جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ
کوقبر میں ملتا ہے۔ (مراۃ المناجیح،6/565ملتقطاً)
3) نرمی سے پیش آنا: اولاد کا حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ نرمی
اختیار کی جائے۔ بلا وجہ سختی سے یہ باغی بھی ہو سکتے ہیں جو کہ ان کے لیے دنیا و
آخرت میں تباہی کا سبب ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک
سلوک کرو۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671)
4) دعا کرنا: دعائے خیر کرنا بھی اولاد کا ایک حق ہے
اور کبھی ناگواری کا معاملہ ہو جانے پر بھی بددعا کی طرف رجوع نہ کیا جائے کہ
منقول ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر
اپنے بیٹے کی شکایت کی تو آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی ہے؟ اس
نے کہا: ہاں! فرمایا: اس کو تم نے ہی خراب کیا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)
5) خرچ کرنا: حق اولاد میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی
ضروریات کے مطابق ان پر خرچ کیا جائے۔ جیسا کہ فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے: اے ابن
آدم! تیرا ضرورت سے زائد مال کو (راہ خدا میں) خرچ کرنا تیرے لیے بہتر ہے اور تیرا
اس مال کو روکے رکھنا تیرے لیے برا ہے اور بقدر ضرورت روکنے پر تجھے ملامت نہیں
کیا جائے گا اور (خرچ کرنے میں) اپنے اہل و عیال سے ابتدا کر اور اوپر والا ہاتھ
نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اللہ
پاک ہمیں سب کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم
النبیین ﷺ
تفصیلی
معلومات کے لیے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا جامع رسالہ
مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد کا مطالعہ کیجئے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے اولاد بھی
ایک نعمت ہے اولاد اللہ کی طرف سے عطا کردہ تحفہ ہیں ہمیں چاہئے کہ اپنی اولاد کو
نیک اور پرہیز گار بنائے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کے رسول اکرم نے فرمایا:
کوئی شحص اپنی اولاد کو ادب دے وہ اسکے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى،
3/382، حدیث:1958) اسی طرح اولاد کے متعلق اور مختلف حقوق ملاحظہ فرمائیں:
1۔ والدین پر یہ حق ہے کہ اولاد کو اچھی تربیت دیں
یونہی شریعت کا پابند بنائیں انہیں دینی ماحول میں رکھیں اس کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے
فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی بنائیں نصرانی یا
مجوسی۔ (بخاری، 3/298، حدیث: 4775) اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے بچہ تو مسلمان
پیدا ہوتا ہے بعد میں اسکے والدین جس طرح چاہے اسے بنا دیں۔
2۔ والدین پر لازم ہے کہ اولاد کو نماز کا حکم دیں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور ان
کو نماز چھوڑنے پر ما رو جب وہ دس سال کے ہوں۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494) عبداللہ
بن مسعود فرماتے ہیں: اپنے بچوں کی نماز کے بارے میں حفاظت کرو۔
3۔ دنیا و آخرت میں بلندی کا باعث اولاد کی نیک
تربیت ہے جس طرح دنیا میں عزت سکون و راحت کا ذریعہ بنتی ہے اس طرح مرنے کے بعد
بھی صد قہ جاریہ بن جاتی ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے اسکے
عمال ختم ہو جاتے ہیں سوائے تین اعمال کے ان میں سے ایک نیک اولاد ہے۔ (مسلم، ص
684، حدیث: 4223)
4۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تمہاری اولاد دس سال
کی ہو جائے تو اسے نماز چھوڑنے پر مارو اور ان کے بستر الگ کر دو۔(ابو داود،
1/208، حدیث: 494)
5۔ اولاد کا حق وراثت میں اولاد اگر بیٹا ہو تو 2
حصہ اور اگر بیٹی ہو تو ایک حصہ ہے رسول پاک ﷺ نے فرمایا: اولاد زندہ پیدا ہو تو
اس پر نماز بھی پڑھی جائے اور وراث بھی بنایا جائے۔ (ابن ماجہ، 2/222، حدیث: 1508)
اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت
ہے جس کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا اور اس کے فضل و شکر بجالانا،
تقاضائے بندگی میں ہے، لیکن ان كی تربیت کرنا ہماری ایک اہم ذمہ داری ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ
الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ
اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28،
التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور
فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں
حکم دیا جاتا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی اے ایمان والو! اللہ
تعالیٰ اور ا س کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں بجالا کر، گناہوں سے
باز رہ کر،اپنے گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور انہیں علم
و ادب سکھا کراپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں۔
یہاں آدمی سے کافر اور پتھر سے بت وغیرہ مراد ہیں اور
معنی یہ ہے کہ جہنم کی آگ بہت ہی شدید حرارت والی ہے اور جس طرح دنیا کی آگ لکڑی
وغیرہ سے جلتی ہے جہنم کی آگ اس طرح نہیں جلتی بلکہ ان چیزوں سے جلتی ہے جن کا ذکر
کیا گیا ہے۔
مزید فرمایا کہ جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو
جہنمیوں پر سختی کرنے والے اور انتہائی طاقتورہیں اور ان کی طبیعتوں میں رحم نہیں،
وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا
جاتا ہے۔ (تفسیر خازن، 4/287)
اسلام نے اولاد کے حقوق مقرر کیے ہیں ان میں سے
پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ والد پر اولاد کا پہلا حق یہ ہے کہ ان کے لیے نیک
ماں کا انتخاب کرے جو اسلام کے اصولوں کے مطابق انکی پرورش کرے۔
2۔ زندگی کی حفاظت یعنی استقرار حمل کے بعد اسے
ضائع کرنے یا ولادت کے بعد اسے قتل کرنے سے پرہیز کرے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ
نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی
اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟
اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا
کیا، میں نے کہا: یہ تو بہت بڑا جرم ہے، پھر اسکے بعد کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل
کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا، میں نے عرض کیا: پھر اسکے بعد کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ
کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/474)
3۔ ایک حق یہ ہے کہ بچے کی ولادت کے بعد اسکا اچھا
نام رکھے کہ ولادت کہ بعد نام والد کی طرف سے بچے کے لیے پہلا تحفہ ہے۔
4۔ والدین پر اولاد کا ایک حق یہ ہے کہ انکے لیے
مناسب قیام طعام اور تعلیم و تربیت کا انتظام کرے۔
5۔ اولاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اولاد کے ساتھ
نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں وہ انسانیت
کے دوسرے شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے وہاں یہ اولاد کے حقوق کے لیے بھی رہنمائی
کرتا ہے۔ ہم بغیر کسی طوالت کے اولاد کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلا اور اہم حق اولاد یہ ہے جسکا بچے کی
پیدائش کے فوری بعد اسلامی اقدار بھی تقاضہ کرتا ہے جیسے کہ جب وہ پیدا ہو تو اس
کو پاک و صاف کرکے اسکے کانوں میں اذان کہی جائے اسے گھٹی دی جائے نیز اسکی پیدائش
کے ساتویں دن عقیقہ کرکے ایک اچھا اور اسلامی نام بمطابق اسماء النبی و صحابہ کرام
و اولیائے کرام تجویز کیا جائے۔
2۔اولاد کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ
ماں باپ اپنی بساط کے مطابق اسکی پرورش کریں اسے اچھی طرح اپنی استطاعت کے مطابق
کھلائیں پلائیں اور اسکو اچھی تعلیم سکھائیں۔
3۔سب سے اہم رکن والدین کی اولاد کو اچھی تربیت
کرنا بھی ہے۔ آج جہاں کئی مشرقی و مغربی ممالک کے لوگ پریشان نظر آتے ہیں کہ آخر
ہماری اولاد کی تربیت میں کیا کمی رہ گئی ہے آئیے قرآن سے ایک مثال کے ذریعے سیکھتے ہیں کہ اولاد کی
تربیت کیسے کی جائے؟
قرآن کے سائے میں اولاد کی تربیت کرنے کا طریقہ: سورہ
لقمان کی کچھ آیات میں اولاد کی تربیت کا بہترین سبق دیا گیا ہے یہ وہ آیات ہیں جن
میں حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کس
طرح حضرت لقمان نے محبت اور نرم دلی سے اپنے بیٹے کو تربیت دی۔
ان آیات شریفہ میں لقمان کے جو الفاظ ذکر فرمائے
گئے ہیں ان الفاظ میں سب سے پہلی قابل توجہ بات لقمان کا اپنے بیٹے کو بار بار ”اے
میرے بیٹے! کہہ کہہ کر بات کرنا ہے، اپنی اولاد کو اس طرح مخاطب کرنے کے انداز کے
ذریعے ہمیں یہ سبق دیا گیا کہ ہم لوگ جب اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں خاص طور پر
جب انہیں کوئی نصیحت کریں یا انہیں کسی کام کی تربیت دیں تو اپنے اور ان کے رشتے
کی یاد دہانی کرواتے رہیں تا کہ ہماری اولاد کے ذہن میں یہ واضح تر ہوتا جائے کہ
مجھے یہ سب کچھ سمجھانے والے میرے اپنے والدین ہیں کوئی دشمن نہیں ہیں، پس جو کچھ
یہ مجھے سمجھا رہے ہیں وہ یقیناً میرے لیے بہتر ی والا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس
انداز تخاطب کا ایک مثبت نفسیاتی اثر اولاد اور والدین کے درمیان محبت میں اضافہ
بھی ہے لہذا اس طریقے اور اسکے علاوہ اگر ہم انبیائے کرام و اولیائے عظام کے
واقعات پڑھیں تو ہم اولاد کی اچھی تربیت میں کس قدر کامیاب ہوسکتے ہیں۔
4۔ جب اولاد کچھ بڑی ہوجائے تو اسے فن و ہنر سکھائے
جس سے وہ اپنا روزگار کما سکے جیسے تجارت وغیرہ۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں وہ انسانیت
کے دوسرے شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے وہاں یہ اولاد کے حقوق کے لیے بھی رہنمائی
کرتا ہے۔ ہم بغیر کسی طوالت کے اولاد کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلا اور اہم حق اولاد یہ ہے جسکا بچے کی
پیدائش کے فوری بعد اسلامی اقدار بھی تقاضہ کرتا ہے جیسے کہ جب وہ پیدا ہو تو اس
کو پاک و صاف کرکے اسکے کانوں میں اذان کہی جائے اسے گھٹی دی جائے نیز اسکی پیدائش
کے ساتویں دن عقیقہ کرکے ایک اچھا اور اسلامی نام بمطابق اسماء النبی و صحابہ کرام
و اولیائے کرام تجویز کیا جائے۔
2۔اولاد کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ
ماں باپ اپنی بساط کے مطابق اسکی پرورش کریں اسے اچھی طرح اپنی استطاعت کے مطابق
کھلائیں پلائیں اور اسکو اچھی تعلیم سکھائیں۔
3۔سب سے اہم رکن والدین کی اولاد کو اچھی تربیت
کرنا بھی ہے۔ آج جہاں کئی مشرقی و مغربی ممالک کے لوگ پریشان نظر آتے ہیں کہ آخر
ہماری اولاد کی تربیت میں کیا کمی رہ گئی ہے آئیے قرآن سے ایک مثال کے ذریعے سیکھتے ہیں کہ اولاد کی
تربیت کیسے کی جائے؟
قرآن کے سائے میں اولاد کی تربیت کرنے کا طریقہ: سورہ
لقمان کی کچھ آیات میں اولاد کی تربیت کا بہترین سبق دیا گیا ہے یہ وہ آیات ہیں جن
میں حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کس
طرح حضرت لقمان نے محبت اور نرم دلی سے اپنے بیٹے کو تربیت دی۔
ان آیات شریفہ میں لقمان کے جو الفاظ ذکر فرمائے
گئے ہیں ان الفاظ میں سب سے پہلی قابل توجہ بات لقمان کا اپنے بیٹے کو بار بار ”اے
میرے بیٹے! کہہ کہہ کر بات کرنا ہے، اپنی اولاد کو اس طرح مخاطب کرنے کے انداز کے
ذریعے ہمیں یہ سبق دیا گیا کہ ہم لوگ جب اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں خاص طور پر
جب انہیں کوئی نصیحت کریں یا انہیں کسی کام کی تربیت دیں تو اپنے اور ان کے رشتے
کی یاد دہانی کرواتے رہیں تا کہ ہماری اولاد کے ذہن میں یہ واضح تر ہوتا جائے کہ
مجھے یہ سب کچھ سمجھانے والے میرے اپنے والدین ہیں کوئی دشمن نہیں ہیں، پس جو کچھ
یہ مجھے سمجھا رہے ہیں وہ یقیناً میرے لیے بہتر ی والا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس
انداز تخاطب کا ایک مثبت نفسیاتی اثر اولاد اور والدین کے درمیان محبت میں اضافہ
بھی ہے لہذا اس طریقے اور اسکے علاوہ اگر ہم انبیائے کرام و اولیائے عظام کے
واقعات پڑھیں تو ہم اولاد کی اچھی تربیت میں کس قدر کامیاب ہوسکتے ہیں۔
4۔ جب اولاد کچھ بڑی ہوجائے تو اسے فن و ہنر سکھائے
جس سے وہ اپنا روزگار کما سکے جیسے تجارت وغیرہ۔
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: بچوں کی تربیت اہم اور تاکیدی امور میں سے ہے بچہ والدین کے پاس امانت ہے اس
کا پاک دل ایک ایسا جوہر نایاب ہے جو ہر نقوش و صورت سے خالی ہے لہذا وہ ہر نقش کو
قبول کرنے والا اور جس کی طرف اسے مائل کیا جاتا ہے اس کی طرف مائل ہو جانے والا
ہے اگر اسے اچھی باتوں کی عادت ڈالی جائے اس کی تعلیم
و تربیت کی جائے تو اسی پر اس کی نشونما ہوتی ہے جس کے باعث وہ دنیا و آخرت میں
سعادت مند ہو جاتا ہے۔ (احیاء العلوم، 3/88)
جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح
اولاد کے بھی والدین پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:
1:زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لا الہ
الا اللہ بھر پور کلمہ طیبہ سکھائے۔
2: جب تمیز آئے
ادب سکھائے، کھانے،
پینے،ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے۔ پھرنے، حیاء،لحاظ،بزرگوں کی تعظیم، ماں
باپ،استاد اور دختر (یعنی بیٹی) کو شوہر کے بھی اطاعت کے طرق و آداب بتائے۔
3: قرآن مجید
پڑھائے، استاد
نیک صالح متقی صحیح العقیدہ سنی سن رسیدہ کے سپرد کردے اور دختر کو نیک و پارسا
عورت سے پڑھوائے۔
4:حضور پرنور ﷺ کے آل و اصحاب اور اولیاء وعلماء کی
صحبت وعظمت کی تعلیم کرے کہ اصل سنت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے
ایمان ہے۔
اولاد کے 5 حقوق از بنت محمد فخر الدین، جامعۃ
المدینہ رحمت کالونی رحیم یار خان
دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
یہاں تک کہ حقوق اللہ پورے کرنے کے باوجود حقوق العباد پورے نہ کرنے کی وجہ سے
بندہ جہنم داخل ہو سکتا ہے۔
جس طرح
اولاد پر والدین کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے اسی طرح والدین پر اولاد کے حقوق کی
ادائیگی لازم ہے۔ جن کو پورا کرنا لازم ہے اولاد کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اچھا نام رکھنا: چونکہ پیدائش کے بعد والدین کی طرف
سے نام رکھنا ہی پہلا تحفہ ہوتا ہے۔اس لیے والدین پر اولاد کا پہلا حق اس کا نام
رکھنا ہے۔بنیادی طور پر نام کسی شخصیت کا حصّہ ہوتا ہے اور نام ہی سے وہ شخص
پہچانا جاتا ہے اس حوالے سے روایت میں ہے کہ (مفہوم) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی
سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے۔ اسی لیے چاہیے کہ اچھے نام رکھے۔ (جمع
الجوامع،3/285،حدیث: 8875)
نام رکھنا صرف دنیا کی زندگی تک نہیں بلکہ آخرت میں
بھی انسان کو اسی نام سے پکارا جائے گا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ قیامت کے دن تم
اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو داود، 4/374،
حدیث: 4948)
2 ،3۔ تعلیم و تربیت: والدین
کا اولاد پر ایک حق یہ بھی ہے کہ انہیں اچھی تعلیم دلوائیں۔ کیونکہ معاشرے میں تعلیم
کی بہت اہمیت ہے۔ جہاں دنیاوی تعلیم کے لیے جدو جہد کی جاتی ہے وہاں دینی مسائل
وغیرہ کی بھی تعلیم دلوائی جائے اولاد کو دینی تعلیم دینے سے مراد فرائض واجبات کے
ضروری مسائل وغیرہ سکھائے جائیں۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بچے کی سب سے
پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہے اس لیے مال کو چاہیے کہ وہ اولاد کی اچھی تربیت
کرے بچوں کی گھر کے کام کاج کے حوالے سے تربیت کرے ان کے سامنے اپنے رویے کو درست
رکھا جائے جیسا کہ روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کا اکرام کرو اور
انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189،
حدیث: 3671)
4۔ یکساں سلوک: ماں
باپ کو چاہیے کہ اولاد کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھیں، ہرگز ہرگز کسی ایک بچے کو
زیادہ اہمیت دے کر دوسروں کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیں، کیونکہ اس کی وجہ
سے باقی بچے اپنے والدین سے بدظن ہو سکتے ہیں، اور اس میں باقی بچوں کی حق تلفی
بھی ہے، اور جب بھی گھر میں پھل وغیرہ کوئی چیز لائیں تو سب کو برابر دیں، اور سب
سے پہلے بیٹیوں کو دیں اور بیٹیوں کی دل جوئی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے، کہ
بیٹیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے اس لیے کچھ دینے میں بیٹیوں سے ابتدا کی جائے۔ اللہ
پاک کے آخری نبی ﷺ جب بھی گھر میں کچھ لاتے تو سب سے پہلے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دیا کرتے۔
5۔ محبت اور شفقت: والدین
پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پیار محبت اور نرمی اختیار کریں۔ ان کے ساتھ
مشفقانہ سلوک کریں ان کی دل جوئی اور دلداری کا خیال رکھیں بچوں سے محبت سے پیش
آنے کے حوالے سے حدیث مبارکہ ہے۔ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا تو حضرت اقراع بن حابس رضی
اللہ عنہ نے عرض کی: میرے دس لڑکے ہیں۔ میں نے کبھی بھی ان میں سے کسی کو بوسہ
نہیں دیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مکاشفۃ
القلوب، ص 594)
بچوں کو
پیار کریں مگر ان کی اچھی بری عادت کا خیال بھی رکھیں بچپن ہی میں انہیں پیارو
محبت سے اچھی عادت سکھائیں کہ بچپن سے پڑی عادات ساری زندگی ساتھ رہتی ہیں۔ بعض والدین
بچوں کی بری عادت دیکھ کر پیار میں منع نہیں کرتے بلکہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ جب بڑا ہوگا سیکھ لے گا یوں اپنے بچوں کا
مستقبل خراب کر دیتے ہیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے غلط عادات پر روک
ٹوک کریں اور انہیں سمجھاتے رہیں۔ اور جب وہ کوئی اچھا کام کریں تو خوش ہو کر ان کی
حوصلہ افزائی کی جائے اور ممکنہ صورت میں انہیں انعام بھی دیں یوں بچہ اچھی عادات
بھی سیکھے گا اور اس کے دل میں آپ کی محبت بھی بڑھے گی۔
اللہ پاک ہمیں حقوق الله کے ساتھ ساتھ حقوق العباد
کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اولاد اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جس پر اللہ پاک کا
جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے بعض والدین ایسے ہیں جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں
اور دن رات دعائیں کرتے ہیں لہذا جنہیں اولاد کی نعمت حاصل ہے انہیں چاہیے کہ
اولاد کی قدر کریں اور جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کے
بھی والدین پر حقوق ہوتے ہیں والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلیٰ حضرت نے ارشاد
فرمائے درج ذیل ہیں:
والد کا اپنی اولاد پر سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ
اپنے بچوں کی امی اچھی (نیک) تلاش کرے جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان
اور بائیں کان میں تکبیر کہے چھوہارا یہ کوئی میٹھی چیز منہ میں نرم کرکے اس کے
منہ میں ڈالے کہ یہ اخلاق اچھے ہونے کی علامت ہے ساتویں روز یا چودھویں یا اکیسویں
روز عقیقہ کرے لڑکی کے لیے ایک جانور لڑکے کے لئے دو جانور اچھا نام رکھے لڑکا کا
نام احمد یا محمد رکھے پکارنے کے لیے کوئی اور رکھ لے پیارے آقا ﷺنے ارشاد فرمایا:
جس دستر خوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہوگا اس پر دو بار برکت نازل کی جائے گی
مارنے میں احتیاط کرے جو مانگے اگر مناسب ہو لے دےماں سے دو سال تک دودھ پلوائے
بچے کا نان نفقہ حاجت کا سامان مہیا کرے۔
زبان کھلتے ہی اﷲ اﷲ پھر لا الہ الا ﷲ پھر پورا
کلمہ سکھائے جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے ،پینے، اٹھنے، بیٹھنے، حیا، بزرگوں کی
تعظیم، ماں باپ، استاذ ، کی تعظیم سکھائے بیٹی کو شوہر کی اطاعت کے آداب اور طریقے
بتائے قرآن پاک پڑھائےبیٹے کو صحیح
العقیدہ سنی اساذ کے حوالے کردے اور بیٹی کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے بعد ختم قرآن
تلاوت کی تاکید کرے حضور اقدس ﷺ کی تعظیم
و محبت انکے دل میں ڈالے سات سال کی عمر سے نماز کی تاکید کرنا شروع کردے 10 سال کی
عمر سے مار کر پڑھائےعلم دین خصوصاً فرائض و واجبات باطنی و ظاہری گناہوں کے متعلق
پڑھائے بیٹے کو لکھنا اور کسی فن میں ماہر ہونا سکھائے اور سورہ مائدہ کی تعلیم
دےبیٹی کو سینا پرونا کاتنا وغیرہ سکھائے سورہ نور کی تعلیم دے بیٹے کا ختنہ اعلان
کے ساتھ کرے بیٹی کی پیدائش پر خوش ہو اور اسے نعمت الہیہ جانے کوئی بھی پھل یہ نئ
چیز لائے تو بیٹی کو دے بیٹیوں سے دلجوئی و خاطر داری زیادہ رکھے کی انکے دل چھوٹے
ہوتے ہیں نو سال سے بچہ اور بچی کا بسترا الگ کردے سفر سے آئے تو انکے لئے ضرور
تحفہ لائےبیمار ہوں تو انکا علاج کروائے ہر گز ہر گز بری صحبت میں نہ بیٹھنے دے
وراثت سے محروم نہ کرے جب کفو ملے تو بیٹیوں کا نکاح کرنے میں دیر نہ کرے۔
نیک اولاد اللہ پاک کا عظیم انعام ہے۔ نیک اولاد کی
دعا کرنا سنت انبیاء ہے بطور مسلمان دین اسلام نے ہم پر کچھ حقوق لازم کیے جیسے
اولاد کے حقوق وغیرہ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں اولاد کے حقوق میں سب سے مقدم
1۔ بچے کا اچھا نام رکھنا: بچے
کی پیدائش کے بعد سب سے پہلا تحفہ اور بنیادی حق اس کا اچھا نام رکھنا ہے جسے وہ
عمر بھر اپنے سینے سے لگائے رکھتا ہے، فرمان مصطفی ﷺ: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے
آباؤ اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔ (ابو داود، 4/374،
حدیث: 4948)
2۔ ضروری عقائد سکھانا: والدین
کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو اسے اللہ پاک فرشتوں آسمانی
کتابوں انبیائے کرام قیامت اور جنت اور دوزخ کے بارے میں بتدریج عقائد سکھائیں اور
ان میں یہ عقائد پختہ کریں تاکہ کل کو وہ اپنی ساری عمر صحیح العقیدہ ہو کر گزار
سکے۔
3۔ پیر کامل کا مرید بنوانا: ایک
مسلمان کے لیے سب سے قیمتی متاع اس کا ایمان ہے ایمان کی حفاظت کی فکر ہمیں دنیاوی
اشیا سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے نیک اعمال پر استقامت کے علاوہ ایمان کی حفاظت کا
ایک ذریعہ کسی پیر کامل سے بیعت ہو جانا بھی ہے۔
4۔ اچھے اخلاق و آداب سکھانا: اولاد
کو اچھے اخلاق و آداب سکھانا اولاد کا حق ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں
اچھے آداب سکھانے کی کوشش کرو۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671)
5۔ شفقت و محبت: اولاد
کے حقوق میں ایک حق ان سے شفقت و محبت سے پیش آنا بھی ہے بچوں کی تعلیم و تربیت کے
لیے ان سے ابتدا ہی سے شفقت و محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے یوں جب مامتا اور شفقت
یدری کی شیرنیی گھول کر تعلیمات اسلام کا مشروب ان کے حلق میں انڈیلا جائے گا تو
وہ فورا اسے ہضم کر لیں گے چنانچہ پیارے آقا جن بچوں کو دیکھ کر مسکرائیں اور ان
کی طرف لگیں ان کی بچوں سے شفقت کا حال سنیے اقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک جنت میں
ایک گھر ہے جسے دار الفرح کہا جاتا ہے اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش
کرتے ہیں۔
سورۂ بقرہ آیت نمبر 83 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ
الْمَسٰكِیْنِ ترجمہ: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتےداروں
اور یتموں اور مسکینوں سے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد
کی بہت اہمیت ہے بلکہ احادیث مبارکہ میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورے کرنے کے
باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں سب کے
حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اولاد اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے اس کے بہت سے
حقوق ہیں جو والدین پر عائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ اچھا نام رکھو نام بچے کے لیے پہلا تحفہ ہے۔ فرمان
مصطفیٰ ﷺ آدمی سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے اس لیے چاہیے کہ اس کا
اچھا نام رکھے۔ (جمع الجوامع،3/285، حدیث:
8875)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے
فرمایا: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا
اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو داود، 4/374، حدیث: 4948)
نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے اچھے نام والے کے
کام بھی ان شاء اللہ اچھے ہوتے ہیں لہذا اپنی اولاد کے اچھے نام رکھو۔
2۔ ضروری عقائد سکھائیے والدین کو چاہیے کہ جب ان
کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو انہیں اللہ پاک فرشتے آسمانی کتابیں انبیائے
کرام قیامت جنت دوزخ کے بارے میں بتدریج سکھائے انہیں ختم نبوت اور دیگر عقائد اہل
سنت سکھائیے عشق خدا و محبت مصطفی صحابہ اہل بیت کی محبت سکھائیے کہ فرمان مصطفی ﷺ:
تم میں کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد
اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 14)
3۔ دینی تعلیم دلوائیے اپنی اولاد کو کامل مسلمان
بنانے کے لیے زیور علم دین سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے وہ دنیاوی تعلیم جس سے
احکام شرعیہ کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو وہ بھی دلائے لیکن زیادہ بہتر علم دین
حاصل کرنا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جس
شخص نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن پڑھایا
پڑھنا سکھایا تو بروز قیامت جنت میں اس شخص کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی بنا
پر اہل جنت جان لیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی تھی۔ (معجم
اوسط، 1/40، حدیث: 94)
4۔ نان و نفقہ اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ پر دل
کھول کر خرچ کیجئے اور بشارات مصطفی ﷺ کی حقدار بنیے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ناجائز اور مشتبہ
چیز سے بچنے کے لیے خود پر خرچ کرے گا تو یہ صدقہ ہے اور جو کچھ اپنی بیوی اولاد
اور گھر والوں پر خرچ کرے گا صدقہ ہے۔ (مجمع الزوائد، 3/301، حدیث: 4660)
5۔ اولاد میں یکسا سلوک کیجیے ماں باپ کو چاہیے کہ
ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں انہیں کوئی چیز دینے اور پیار و محبت اور شفقت
میں برابری کا اصول اپنائیں بلا وجہ شرعی کسی بچے بالخصوص بیٹے کو نظر انداز کر کے
دوسرے کو اس پر ترجیح نہ دیں، معلم اخلاق ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ
پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں
بھی برابری کرو۔ (کنز العمال، 16/ 185، حدیث: 45342)
اللہ پاک ہمیں جملہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عورت جب صاحب اولاد اور بچوں کی ماں بن جائے
تو اس پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ شوہر اور والدین وغیرہ کے
حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق بھی عورت کے سر پر ہو جاتے ہیں۔ جن کو ادا کرنا ہر ماں
کا فرض منصبی ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کا حق ادا نہ کرے گی۔ یقیناً وہ شریعت کے نزدیک
بہت بڑی گناہگار، اور سماج کی نظروں میں ذلیل و خوار ٹھہرے گی۔
(1)بچے کا نام رکھنا: والدین
کی طرف سے اولاد کےلیے سب سے پہلا تحفہ اسکا اچھا نام رکھنا ہے۔ نام رکھے یہاں تک
کہ کچے بچے کا بھی جو کم دنوں کا گر جائے ورنہ اللہ تعالیٰ
کے یہاں شاکی ہوگا (شکایت کریگا) برا نام نہ رکھے کہ بد فال، بد ہے (کہ برا شگون
برا ہے) عبداللہ،عبدالرحمٰن،احمد،حامد وغیرہا عبادت و حمد کے نام (یعنی جن ناموں
میں بندہ کی نسبت اسم جلالت یعنی اللہ یا اس کے صفاتی ناموں کی طرف ہو یا جس نام
میں حمد کا معنی ہو۔ یا انبیاء، اولیاء یا بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے
نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک
نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری
محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسکا نام محمد رکھے، تو وہ اور اس
کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
جب محمد نام رکھے تو اس کی تعظیم و تکریم کرے۔ مارنے
برا کہنے میں احتیاط رکھے۔ پیار میں چھوٹے لقب بےقدر نام نہ رکھے کہ پڑا ہوا نام
مشکل سے چھوٹتا ہے۔
احتیاط: نام محمد یا
احمد رکھیں اور پکارنے کےلیے کوئی اور اچھا نام رکھ لیں۔
(2) بچوں سے پیارو محبت: ہر
ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیارومحبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ
مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور
تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔ بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی
رہے۔ بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے
ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔ (3) بچوں کی تربیت: بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو
چاہیئے
کہ انہیں بار بار اللہ و رسول ﷺ کا نام سنائے
ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔ جب بچے
بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔ بچوں کو
اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔
(4) بچوں کی صحبت پر توجہ دینا: خراب
لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت، ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے
دیکھنے سے، ناچ گانے، سینما تھیٹر، وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر
بچائیں۔ اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔
(5)بچوں کو چیزیں دینے میں حق تلفی نہ
کرنا: نیا
میوہ، نیا پھل، پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے
پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔ چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور
برابر دیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں، ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز
بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔
کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔