اسلام میں اولاد کے حقوق بھی مقرر ہیں آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ ہو:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ہر ذمہ دار سے اسکی رعایا کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے انکے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا، یا ضائع کردیا، حتی کہ بندے سے اسکے اہل و عیال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ (صحیح ابن حبان، 6/465 حدیث: 4475)

اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، زندگی کی خوشی اور مستقبل کی امید ہیں، انسان کے گھر کی رونق اولاد سے ہے، انکی زندگی میں لذت و سرور، اولاد ہی سے ہے بلکہ شرعی طور پر اولاد ایک ایسا ذخیرہ ہیں کہ انسان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا فیض انہیں پہنچتا رہتا ہے : صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)

لیکن کسی بھی باپ و ماں کو یہ نعمت اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے بچوں کے حقوق کو ادا کریں، ذیل میں اولاد کے چند حقوق ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔ ماں کا انتخاب: یہ وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے اولاد کے حقوق شروع ہوتے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: اپنے نطفے کیلئے اچھے رحم کا انتخاب کرو چنانچہ کفو میں اپنے مردوں کی شادی کرو اور لڑکیوں کی شادی میں بھی کفو کا لحاظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 2/474، حدیث: 1968)

2۔ زندگی کی حفاظت: یعنی استقرار حمل کے بعد اسے ضائع کرنے یا ولادت کے بعد اسے قتل کرنے سے پرہیز کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا، میں نے کہا: یہ تو بہت بڑا جرم ہے، پھر اسکے بعد کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا، میں نے عرض کیا: پھر اسکے بعد کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/474)

3۔ رضاعت و حضانت: بچپن اور بلوغت کو پہنچنے کے مرحلے تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے کھلانے پلانے کا انتظام کریں: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے گناہ گار ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق ضائع کردے یعنی نان و نفقہ میں کوتاہی کرے۔

4۔ تعلیم و تربیت: اولاد کا ایک اہم حق یہ ہے کہ والدین انکی تعلیم وتربیت کا خیال رکھیں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بچے کو سات سال کی عمر میں نماز سکھاؤ اور دس سال کی عمر میں اس نماز میں کوتاہی کرنے پر انکی گوش مالی کرو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

5۔ عقیقہ اور نام: پیدائش کے بعد والدین کی سب سےاہم ذمہ داری بچے کا عقیقہ کرنااور اسکے لئے عمدہ نام کا انتخاب کرنا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی رہتا ہے، ساتویں دن اسکی طرف سے عقیقہ کیا جائے، اس سے گندگی کو دور کیا جائے یعنی اسکے بال اتروائے جائیں اور نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)

اللہ کریم ہمیں شریعت کے احکامات کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہر انسان کے دوسرے پر حقوق ہوتے ہیں جیسے کہ پڑوسی کے پڑوسی پر حقوق رشتہ داروں کے حقوق مسافروں کے حقوق اسی طرح اولاد پر والدین کے حقوق اور والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہوتے ہیں۔

1: بچوں کے اچھے نام رکھے جائیں۔ پیدائش کے بعد بچوں کے اچھے نام رکھے جائیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا: اچھوں کے نام پر نام رکھو اور اپنی حاجت اچھے چہرے والوں سے طلب کرو۔ (الفردوس بماثور الخطاب، 2/80، حدیث: 2329)

محمد نام رکھنے کی فضیلت: حدیث مبارکہ میں ہے: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے والا والد) اور اس کا لڑکا دونوں بہشت یعنی جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 14/ 170، حدیث: 40210)

2: جب سمجھدار ہو جائیں تو قرآن پاک پڑھائیں۔ جب اولاد سمجھدار ہو جائے تو ان کو قرآن پاک پڑھائیں اور اولاد کو ادب سکھایا جائے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: باپ پر اولاد کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں بہترین ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

3: اولاد سے محبت کی جائے۔ اپنی اولاد سے محبت کی جائے ان کی جائز خواہشات پوری کی جائیں جناب اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو اپنے نواسہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو چومتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)

4:بچوں سے نرمی اور بھلائی کی جائے، حضرت عبداللہ بن شہداد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہو گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا لوگوں نے سمجھا شاید کوئی بات ہو گئی ہے جب آپ نے نماز پوری کر لی تو صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے بہت طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ ہم سمجھے کوئی بات واقع ہو گئی ہے آپ نے فرمایا میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تو میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کہ وہ اپنی خوشی پوری کر لے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)

5: اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہیے۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے کسی لڑکے کی شکایت کی آپ نے فرمایا: تم نے اس پر بددعا کی ہے اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: تو نے اسے برباد کر دیا اولاد کے ساتھ نیک سلوک اور نرمی کرنی چاہیے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)


اسلام میں اولاد کے بہت سے حقوق بیان کیے گئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہوں۔

1۔ اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے یہ حق ہے کہ آدمی اپنا نکاح کسی کم عمر سے نہ کرے بری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔

2۔ دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچے پر نانا ماموں وغیرہ کے عادات و افعال کا بھی اثر پڑتا ہے۔

3۔ کالے رنگ والے لوگوں میں قرابت نہ کرے کہ کہیں ماں کا کالہ رنگ بچے کو بدنما نہ کر دے۔

4۔ جماع کی ابتداء بسم اللہ شریف سے کرے ورنہ بچے میں شیطان شریک ہو جاتا ہے۔

5۔ اس وقت شرمگاہ یعنی عورت کے مخصوص مقام کی طرف نظر نہ کرے کہ بچے کہ اندھے ہونے کا اندیشہ ہے۔

6۔ زیادہ باتیں نہ کرے کہ توتلے یا گونگے ہونے کا خطرہ ہے۔

7۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے کہ بچہ خلل شیطان اور ام الصبیان سے محفوظ رہے گا۔ بہتر یہ ہے کہ داہنے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں تین مرتبہ اقامت کہے۔

8۔ بچے کا اچھا نام رکھے یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی جو کم دنوں کا گر جائے ورنہ اللہ کریم کے یہاں شاکی ہوگا یعنی شکایت کرنے والا ہوگا۔

9۔برا نام نہ رکھے بہتر یہ ہے کہ محمد نام رکھا جائے۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے پاک نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

اللہ کریم ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ہمیں شریعت کے احکامات اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللھم آمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ کا نائب ہے اس لیے انسان کو بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں ان میں اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولا نا اولا د سے والدین کے حقوق کے متعلق پوچھنے سے پہلے والدین سے اولاد کے حقوق کے متعلق پوچھے گا۔ جیسے الله نے والدین کے ساتھ نیکی نے کا حکم دیا ایسے ہی اولاد کے ساتھ بھی نیکی کرنے کا حکم ہے۔ اولاد کے حقوق میں سے کچھ حقوق یہ ہیں:

جب بچہ سال ہو تو سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے۔

عقیقہ کرنا۔ بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن یا اس کے بعد جو جانور اس کے حوالے سے ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے عقیقے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقے کے ساتھ گروی ہے۔ اس کی طرف سے ساتویں دن ذبح کیا جائے اور بچے کا نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)

اچھے نام کا انتخاب کرنا۔ والدین کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں اور ان کو اچھے نام سے پکاریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ باپ پر بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے۔(شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

ختنہ کروانا، اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرنا یعنی بیٹوں اور بیٹیوں میں فرق نہ کیا جائے بلکہ بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح ہر چیز میں برابر حصہ دیا جائے۔ بیٹوں کے بالغ ہونے پر ان کی مناسب جگہ شادی کی جائے۔

اولاد کی غلطیوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ انہیں صحیح اور غلط کی پہچان ہو۔

ان کے لیے دعائے خیر کرنا ، چنانچہ نبی کریم ﷺ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں لے کر دعا کرتے تھے کہ اے الله ! ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔

اولاد کو روزگار کے لائق بنانا تاکہ بڑے ہونے پر وہ خود کما سکیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ سکیں۔

آخر میں الله سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں تمام حقوق بر وقت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بچوں کے حقوق والدین پر بہت اہم ہوتے ہیں۔ قرآن  و حدیث میں بچوں کے حقوق کے بارے میں کئی اہم باتیں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں کچھ اہم حقوق کی بات کرتے ہیں:

1 حق تربیت: والدین کا بچوں کی تربیت کرنے کا حق ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو نیک اخلاق، دینی تعلیم اور احساس مسئولیت سکھانے کا ذمہ دار ہوتے ہیں۔

2 حق احترام: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ احترام اور نوازش کے ساتھ پالے جائیں۔ والدین کو بچوں کے ساتھ محبت، لطف اور توجہ کا اظہار کرنا چاہیے۔

3 حق تعلیم: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ مکمل تعلیم حاصل کریں۔ والدین کو بچوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کرنا چاہیے۔

2 حق حفاظت: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ حفاظت میں رکھے جائیں۔ والدین کو بچوں کی حفاظت، امن و امانت کا خیال رکھنا چاہیے۔

3 حق صحت: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ صحتمند رہیں۔ والدین کو بچوں کی صحت یابی کیلئے مناسب غذا، صحت کی نگہداشت اور طبی معائنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

4 حق لذت: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ لذت اور کھیل کے وقت کا اندازہ لیں۔ والدین کو بچوں کے لئے مناسب تفریحی مواقع فراہم کرنا چاہیے۔

5 حق تعلیم: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ مکمل تعلیم حاصل کریں۔ سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں میں ان کو داخل کرنے کا حق ہوتا ہے۔

6 حق حیات: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ خوشحال اور مطمئن حیات گزاریں۔ والدین کو بچوں کی خوشیوں اور خوشحالیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

7 حق انصاف: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ ان کے مسائل اور تنقیدوں کو سنا جائے اور ان کی باتوں کو سمجھا جائے۔

8 حق تشریفات: بچوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ تشریفات کے ساتھ پیش آئیں۔ دوسروں کی عزت کی جائے۔

دین اسلام نے والدین،اساتذہ کرام،رشتہ داروں،پڑوسیوں وغیرہ کے ساتھ ساتھ اولاد کے حقوق بھی مقرر کیے ہیں۔ آئیے ہم اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے رسالے مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد میں بیان کردہ کچھ اولاد کے حقوق مع احادیث کریمہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

1۔ بچہ کا یہ حق ہے کہ اس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اسلام سے قبل اہل عرب اپنے بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے، حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: روز قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔ (ابو داود، 4/374، حدیث: 4948)

2۔اولاد کو قرآن پاک پرھائے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں اسکی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب معلم بچے سے کہتا ہے کہ پڑھو بسم اللہ الرحمن الرحیم بچہ پڑھنے والا جب پڑھتا ہے، تو اللہ تبارک و تعالیٰ بچے اور معلم اور بچے کے والدین کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے۔

سبحان اللہ! ایک اور حدیث پڑھئے اور ایمان تازہ کیجئے، پیارے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی دنیا میں اپنے بچے کو قرآن سکھائے، اسے قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا اہل جنت اسے جنت میں اسی حوالے سے جانیں گے کہ وہ شخص ہے کہ اس نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن سکھایا تھا۔

3۔ جب تمیز آئے تو ادب سکھائے یاد رکھئے! قیامت کے دن جس طرح دیگر نعمتوں کے متعلق سوال ہوگا یوں ہی اولاد بھی ایک نعمت ہے اس کے متعلق بھی ہم سے سوال ہوگا۔ اپنی اولاد کی درست اسلامی تربیت کرکے دنیا میں ہی اس سوال کا جواب تیار کرلیجئے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بچّے کی اچھی تربیت کرو کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کی کیسی تربیت کی اور تم نے اسے کیا سکھایا۔ (شعب الایمان، 6 / 400، حدیث: 8662) لہٰذا اپنی اولاد کو وہ کچھ سکھائیے کہ جس سے قیامت کے دن آپ کو رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشادفرمایا: کسی باپ نے اپنے بچّے کو ایسا عطیہ نہیں دیا جو اچّھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3 / 383، حدیث: 1959)

4۔اسے میراث سے محروم نہ کرے۔ اسکے متعلق وعید بیان کرتے ہوئے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کو اس کی میراث سے محروم کردے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت سے محروم فرما دے گا۔ (ابن ماجہ، 3/304، حدیث: 2703)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں والدین و اولاد کے حقوق کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان حقوق کی ادائیگی میں غلطیوں و کوتاہیوں سے محفوظ فرمائے۔


اسلام اتنا پیارا اور خوبصورت دین ہے کہ اس نے ہر کسی کے حقوق متعین کیے ہیں خواہ والدین ہوں، بہن بھائی ہوں، رشتے دار ہوں، اولاد ہوں الغرض ہر کسی کے حقوق متعین کیے ہیں آج جن حقوق کے بارے میں تذکرہ ہوگا وہ اولاد کے حقوق ہیں اور یہ ایک اتنا اہم اور خوبصورت موضوع ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک پورا رسالہ بنام  مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد تحریر فرمایا ہے۔ آئیے اولاد کے کچھ حقوق ملاحظہ ہوں:

(1)اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے جو میرے آقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ بچے کا اچھا نام رکھا جائے بہتر یہی ہے کہ محمد یا احمد رکھ لیا جائے اور پکارنے کے لیے کوئی اور نام رکھ لیا جائے حدیث مبارکہ میں محمد اور احمد نام رکھنے کے بہت فضائل آئے ہیں ملاحظہ ہو:

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جس کے یہاں لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبّت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنّت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

(2) دوسرا حق یہ کہ اس کی اولاد کے دل میں حضور ﷺ کی محبت ان کے اہل بیت کی محبت ڈالے یہ عین ایمان اور اصل ایمان ہے اس بارے میں حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو۔

میرے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہل بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)

(3) تیسرا حق علم دین خصوصا نماز روزے کے مسائل، اور بغض، جسد، تکبر، وعدہ خلافی، گالی گلوچ، کینہ، اور ان جیسی دیگر برائیوں کے رزائل پڑھائے نیز صدق، عدل، قناعت، زہد، حیا، امانت اور ان جیسی دیگر خوبیوں کے فضائل پڑھائے۔

(4) چوتھا اور سب سے اہم حق عقائد اسلام و سنت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی و قبول حق پر مخلوق ہے (اس لیے کہ بچہ فطرتا دین اسلام اور حق بات قبول کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے) اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔

(5) پانچواں حق جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ بزرگوں کی تعظیم، والدین اور استاد کا ادب اور دختر کے بھی شر اطاعت کے طرق و آداب طور طریقے بتائے اور سب زیادہ قرآن کریم کی تعلیم دے۔

یہ پانچ حق پیان ہوئے لیکن یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس کو اس مختصر سے مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں اولاد کے حقوق مزید جاننے کے لیے میرے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے ان شاء اللہ الرحمٰن ڈھیروں معلومات حاصل ہوں گی۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر مسلمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین


اسلام میں طفل کا تصور بلوغت تک ہے چاہے وہ 13 سال کی عمر تک ہو چاہے 16 تک۔ طفل کسی نہ کسی کی اولاد ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کے والدین پر ہوتی ہے۔ اگر والدین نہ کر سکیں تو ریاست پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

(1) والدین کا اولاد کو نیک اخلاقی اور دنیاوی تعلیمات فراہم کرنے کا حق ہے۔

(2) رضاعت کہ ماں کے دودھ نہ ہو تو دائی رکھنا، بے تنخواہ نہ ملے تو تنخواہ دینا واجب، نہ دے تو جبراً لی جائے گی جبکہ بچے کا اپنا مال نہ ہو، یو ہیں ما بعد الطلاق و مرورِ عدت (طلاق اور عدت گزرنے کے بعد) بے تنخواہ دودھ نہ پلائے تو اسے بھی تنخواہ دی جائے گی۔

(3) اپنے نابالغ بچے، پسر خواہ دختر کو غیر کفو سے بیاہ (شادی کر) دینا، یا مہر مثل میں غبن فاحش کے ساتھ (یعنی بہت زیادہ کمی یا زیادتی کے ساتھ نکاح کرنا) مثلاً دختر کا مہر مثل ہزار ہے پانسو پر نکاح۔

(4) حضانت (پرورش) کہ لڑکا سات برس، لڑکی نو برس کی عمر تک جن عورتوں مثلا ماں، نانی، دادی خالہ پھوپی کے پاس رکھے جائیں گے اگر ان میں کوئی بے تنخواہ نہ مانے اور بچہ فقیر اور باپ غنی ہے تو جبراً تنخواہ دلائی جائے گی۔

(5) ان کیلئے ترکہ باقی رکھنا کہ بعد تعلق حق ورثہ یعنی بحالت مرض الموت مورث اس پر مجبور ہوتا ہے یہاں تک کہ ثلث سے زائد میں اس کی وصیت بے اجازت ورثہ نافذ نہیں۔

(6) اولاد کو اخلاقی اور معاشرتی قیمتوں کی تربیت دینے کا حق ہے۔


شریعت کے مطابق اولاد کی تربیت کریں حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی فرماتے ہیں: اولاد کی تربیت اہم اور تاکید امور میں سے ہے اولاد والدین کے پاس امانت ہے اس کا پاک دل ایک ایسا جوہر نایاب ہے جو ہر نقش و صورت سے خالی ہے لہذا وہ ہر نقش کو قبول کرنے والا اور جس طرف اسے مائل کیا جائے اس کی طرف مائل ہو جانے والا ہے اگر اسے اچھی باتوں کی عادت ڈالی جائے اور اس کی تعلیم و تربیت کی جائے تو اسی پر اس کی نشونما ہوئی ہے جس کے باعث دنیا اور اخرت میں سعادت مند ہو جاتا ہے۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر ہوتے ہیں والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند حقوق پیش خدمت ہیں۔

1) زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لا الہ الا اللہ پھر بھرپور کلمات سکھائیں۔

2) جب تمیز ہے ادب سکھائیں کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے،حیا،لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ استاد اور دختر کو شوہر کے بھی اطاعت کے طریق و آداب بتائیں۔

3) قرآن پاک پڑھائیں۔

4) استاد نیک صالح، متقی، صحیح العقیدہ سن رسیدہ کے سپرد کر دیں اور دختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائیں۔

5) حضور اقدس رحمت عالم ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالیں اصل ایمان و عین ایمان ہے۔

6) حضور پر نور ﷺ کے آل و اصحاب اولیاء علماء کی محبت و عظمت تعظیم کرے کہ اصل سنت و زیورِ ایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ تمام والدین کو اپنی اولاد کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)

اولاد کے حقوق ماں باپ کے فرائض میں شمار ہوتے ہیں اور یہ حقوق اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں، چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی مکرّمﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے نطفہ کے لئے اچھی جگہ تلاش کرو کہ عورتیں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پید اکرتی ہیں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، 6/423)

اولاد کے حقوق کی بات کی جائے تو بعض حقوق شرعی ہوتے ہیں بعض اخلاقی ہوتے ہیں اور بعض حقوق عرفی ہوتے ہیں۔

1۔ جب بچہ پیدا ہو تومستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان واقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتداء ہی سے بچے کے کان میں اللہ پاک اور اس کے پیارے محبوب ﷺ کا نام پہنچ جائے۔ بچے کا نام درست دین کے مطابق رکھا جائے۔

2۔اولاد کو پیدا ہوتے ہی کسی کامل پیر کا مرید بنا دینا چاہیے۔ دودھ پیتے بچے کو بھی بے پیرا نہیں چھوڑنا چاہیے۔

3۔ بہترین تعلیم و تربیت اولاد کا بنیادی حق ہے۔ آپ کی اولاد، آپ کے جگر کاٹکڑا اور اپنی ماں کی آنکھوں کا نور سہی لیکن اس سے پہلے اللہ پاک کا بندہ، نبی کریم ﷺ کا امّتی اور اسلامی معاشرے کا اہم فرد ہے۔ اگر آپ کی تربیت اسے اللہ پاک کی بندگی، سرکار مدینہ ﷺ کی غلامی اور اسلامی معاشرے میں اس کی ذمہ داری نہ سکھا سکی تو اسے اپنا فرماں بردار بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیجئے کیونکہ یہ اسلام ہی ہے جو ایک مسلمان کو اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے اولاد کی ظاہری زیب وزینت، اچھی غذا، اچھے لباس اور دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی وروحانی تربیت کے لئے بھی کمربستہ ہوجائیے۔

اولاد کی تعلیم و تربیت اس کے بچپن سے ہی شروع کر دینی چاہیے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا دماغ ایک خالی صفحے کی طرح ہوتا ہے جس پر جو بات لکھ دی جائے چھپ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر اپ بچپن میں بچے کو اسلام میں پہل کرنا سچ بولنا چغلی نہ کرنا غیبت نہ کرنا سکھائیں تو وہ جلدی سیکھ جاتے ہیں اور پوری عمر بری عادتوں سے بیزار اور سنتوں کی پابند رہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ خود والدین سنتوں کے پابند اور حسن اخلاق کے پیکر ہوں۔ گھر میں بچے کو مدنی ماحول مہیا کریں۔

4۔والدین کو چاہیے کہ بچے کو حلال روزی کھلائے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس لئے حلال کمائی کرتا ہے کہ سوال کرنے سے بچے، اہل وعیال کے لئے کچھ حاصل کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا۔ (شعب الایمان، 7/298، حدیث: 10375)

5۔ والدین کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو اسے ضروری عقائد سکھائے۔ بچے کے ذہن میں جنت کا شوق اور جہنم کا خوف بٹھائیے۔ اولاد کے دل میں اقا کریم ﷺ کی محبت ڈال لیں۔ ان کے دلوں میں مدینے کی محبت ڈال لیں۔ قرآن مجید اور بنیادی علوم سکھائیں۔ اولاد کو نماز پڑھنے کی ترغیب دیجیے روزہ رکھوا ئیں اولاد کے دل میں شوق علم پیدا کریں اور انہیں آداب سکھائیں۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

6۔ اولاد کے جوان ہوجانے پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی نیک اور صالح خاندان میں شادی کر دیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا نکاح کرو، بیٹیوں کو سونے اور چاندی سے آراستہ کرو اور انہیں عمدہ لباس پہناؤاور مال کے ذریعے ان پر احسان کرو تاکہ ان میں رغبت کی جائے۔ (کنز العمال، 16/191، حدیث: 45424)

اولاد کو چاہیے کہ وہ بھی والدین کے حقوق خوف خدا اور اخلاص سے ادا کریں۔ اللہ ہمیں متقی پرہیزگار اور والدین کا فرمانبردار بنائے۔ آمین

اسلام ایسا پیارا اور متوازن نظام والا دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہنما اصول فراہم کرتا ہے اسلام نے دیگر حقوق کی طرح والدین کے حقوق کے ساتھ ساتھ اولاد کے حقوق بھی بیان کیے ہیں۔ چند پیشِ خدمت ہیں:

1: جب بچہ پیدا ہو تو فورا ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پر رہتا کہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے۔

2: جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو اور غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دیکھ کر ان کو نمازی بنائیں۔

3: جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔

4:یہ بھی بچوں کا حق ہے کہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کا سر منڈوا کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کرے اور بچوں کا کوئی اچھا نام رکھے ہرگز کوئی برا نام نہ رکھیں۔

5: بچوں کو اسلامی ادب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔

6: بچے جب کچھ بولنے لگے تو ماں کو چاہیے کہ انہیں بار بار اللہ پاک اور رسول ﷺ کا نام سنائے ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائے۔

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کے حقوق ادا کرنا ہم پر لازم ہے۔ آمین


جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کے بھی والدین پر حقوق ہوتے ہیں میرے آقا و مولیٰ اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان نے اپنے رسالے مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد اولاد کے حقوق بیان فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ برا نام نہ رکھے کہ بد فال، بد ہے (کہ برا شگون برا ہے) عبد اللہ، عبد الرحمن، احمد، حامد وغیرہا عبادت وحمد کے نام یا انبیاء، اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعثِ برکت) ہے خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ ارشادفرماتے ہیں: روز قیامت دو شخص اللہ ربّ العزت کے حضور کھڑے کئے جائیں گے حکم ہو گا انہیں جنت میں لے جاؤ، عرض کریں گے: الٰہی ! ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے ہم نے توکوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ پاک فرمائے گا: جنت میں جاؤ میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا۔ (مسند الفردوس، 2/503، حدیث: 8515)

2۔ جب بچہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان اور ام صبیان سے بچے بہتر یہ ہے کہ داہنے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں میں تین مرتبہ اقامت کہی جائے۔ (بہار شریعت، 3/153، حصہ: 15)

امّ الصبیان: ایک قسم کی مرگی ہے جو اکثر بچوں کو بلغم کی زیادتی اور معدے کی خرابی سے لاحق ہوتی ہے جس سے بچوں کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہو جاتے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ، 1/221)

3۔ ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے، دختر (بیٹی) کیلئے ایک، پسر (بیٹے) کیلئے دو کہ اس میں بچے کا گویا رہن (گروی) سے چھڑانا ہے۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: گروی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس (بچے) سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض نے کہا: بچہ کی سلامتی اور اسکی نشوونما اور اس میں اچھے اوصاف (خوبیاں) ہونا عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مزید ارشاد فرماتے ہیں: لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذبح کی جائے یعنی لڑکے میں نر جانور اور لڑکی میں مادہ مناسب ہے اور لڑکے کے عقیقہ میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب بھی حرج نہیں اور عقیقہ میں گائے ذبح کی جائے تو لڑکے کے لئے دو حصے اور لڑکی کے لئے ایک حصہ کافی ہے، یعنی سات حصوں میں دو حصے یا ایک حصہ۔ نیز اسی میں ہے: لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی نے کی تو یہ بھی جائز ہے۔ (بہار شریعت، 3/154، 155، حصہ: 15)

4۔جماع کی ابتداء بسم اللہ سے کرے ورنہ بچہ میں شیطان شریک ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے فر ماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قربت کا ارادہ کرے تو یہ دعاپڑھے: بسم اللہ اللّٰہمّ جنبنا الشّیطان وجنب الشّیطان ما رزقتنا یعنی اللہ کے نام سے، اے اللہ ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور جو (اولاد) تو ہمیں دے اسکو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔ تو اگر اس صحبت میں ان کے نصیب میں بچہ ہوا تو اسے شیطان کبھی نقصان نہ دے سکے گا۔ (بخاری، 4/214، حدیث: 6388) اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: یہ دعا ستر کھولنے سے پہلے پڑھے پھر فرماتے ہیں: اس صحبت میں نہ شیطان شریک ہو اور نہ بچے کو شیطان کبھی بہکائے، بسم اللہ سے مراد پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے: خیال رہے کہ جیسے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک ہوجاتا ہے ایسے ہی صحبت میں بھی، اور جیسے کھانے پینے کی برکت شیطان کی شرکت سے جاتی رہتی ہے ایسے ہی صحبت میں شیطان کی شرکت سے اولاد نالائق اور جنّاتی بیماریوں میں گرفتار رہتی ہے اور جیسے بسم اللہ پڑھ لینے سے شیطان کھانے پینے میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ایسے ہی بسم اللہ کی برکت سے صحبت میں شیطان کی شرکت نہیں ہوتی جس سے بچہ نیک ہوتا ہے اور آسیب وغیرہ سے بھی بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہتا ہے، بہتر یہ ہے خاوند بیوی دونوں پڑھ لیں۔ (مراۃ المناجیح، 4/30، 31)

5۔زنگیوں حبشیوں (کالے رنگ والے شیدی لوگوں) میں قرابت نہ کرے کہ ماں کا سیاہ رنگ بچہ کو بد نما نہ کر دے۔

اسکے علاوہ بھی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اسی (80) کے قریب حقوق اپنے رسالے میں تحریر فرمائے ہیں جیسے: علم دین خصوصاً وضو،غسل، نماز و روزہ کے مسائل توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدور و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل، حرص وطمع، حب دنیا، حب جاہ، ریا، عجب، تکبّر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل پڑھائے۔٭ خاص پسر (یعنی بیٹے) کے حقوق سے یہ ہے کہ اسے لکھنا، پیرنا (یعنی کسی فن میں ماہر ہونا)، سپہ گری سکھائے۔ سورۂ مائدہ کی تعلیم دے۔ اعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔٭ خاص دختر (یعنی بیٹی) کے حقوق سے یہ ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بلکہ نعمت الٰہیہ جانے، اسے سینا،پرونا، کاتنا، کھانا پکانا سکھائے اورسورۂ نور کی تعلیم دے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24 / 454، 455 ملتقطاً)

الله کریم ہمیں ہم پر لازم حقوق کی احسن طریقے سے ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین