اولاد کے5 حقوق از بنت شبیر احمد زیدی،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو
اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ
نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا
نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159،
حدیث: 2554)
اولاد کے حقوق ماں باپ کے فرائض میں شمار ہوتے ہیں
اور یہ حقوق اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں، چنانچہ ام المؤمنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی مکرّمﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے
نطفہ کے لئے اچھی جگہ تلاش کرو کہ عورتیں اپنے ہی بہن بھائیوں کے مشابہ بچے پید
اکرتی ہیں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، 6/423)
اولاد کے حقوق کی بات کی جائے تو بعض حقوق شرعی
ہوتے ہیں بعض اخلاقی ہوتے ہیں اور بعض حقوق عرفی ہوتے ہیں۔
1۔ جب بچہ پیدا ہو تومستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں
اذان واقامت کہی جائے کہ اس طرح ابتداء ہی سے بچے کے کان میں اللہ پاک اور اس کے
پیارے محبوب ﷺ کا نام پہنچ جائے۔ بچے کا نام درست دین کے مطابق رکھا جائے۔
2۔اولاد کو پیدا ہوتے ہی کسی کامل پیر کا مرید بنا
دینا چاہیے۔ دودھ پیتے بچے کو بھی بے پیرا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
3۔ بہترین تعلیم و تربیت اولاد کا بنیادی حق ہے۔ آپ
کی اولاد، آپ کے جگر کاٹکڑا اور اپنی ماں کی آنکھوں کا نور سہی لیکن اس سے پہلے اللہ
پاک کا بندہ، نبی کریم ﷺ کا امّتی اور اسلامی معاشرے کا اہم فرد ہے۔ اگر آپ کی
تربیت اسے اللہ پاک کی بندگی، سرکار مدینہ ﷺ کی غلامی اور اسلامی معاشرے میں اس کی
ذمہ داری نہ سکھا سکی تو اسے اپنا فرماں بردار بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ
دیجئے کیونکہ یہ اسلام ہی ہے جو ایک مسلمان کو اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار
بننے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے اولاد کی ظاہری زیب وزینت، اچھی غذا، اچھے لباس اور
دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی وروحانی تربیت کے لئے بھی
کمربستہ ہوجائیے۔
اولاد کی تعلیم و تربیت اس کے بچپن سے ہی شروع کر
دینی چاہیے کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا دماغ ایک خالی صفحے کی طرح ہوتا
ہے جس پر جو بات لکھ دی جائے چھپ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر اپ بچپن میں بچے کو
اسلام میں پہل کرنا سچ بولنا چغلی نہ کرنا غیبت نہ کرنا سکھائیں تو وہ جلدی سیکھ
جاتے ہیں اور پوری عمر بری عادتوں سے بیزار اور سنتوں کی پابند رہتے ہیں۔ لیکن اس
کے لیے ضروری ہے کہ خود والدین سنتوں کے پابند اور حسن اخلاق کے پیکر ہوں۔ گھر میں
بچے کو مدنی ماحول مہیا کریں۔
4۔والدین کو چاہیے کہ بچے کو حلال روزی کھلائے۔
چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس لئے حلال کمائی کرتا
ہے کہ سوال کرنے سے بچے، اہل وعیال کے لئے کچھ حاصل کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسن
سلوک کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح
چمکتا ہو گا۔ (شعب الایمان، 7/298، حدیث: 10375)
5۔ والدین کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو
پہنچ جائے تو اسے ضروری عقائد سکھائے۔ بچے کے ذہن میں جنت کا شوق اور جہنم کا خوف
بٹھائیے۔ اولاد کے دل میں اقا کریم ﷺ کی محبت ڈال لیں۔ ان کے دلوں میں مدینے کی
محبت ڈال لیں۔ قرآن مجید اور بنیادی علوم
سکھائیں۔ اولاد کو نماز پڑھنے کی ترغیب دیجیے روزہ رکھوا ئیں اولاد کے دل میں شوق
علم پیدا کریں اور انہیں آداب سکھائیں۔ جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ
غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا
یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان
والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر
ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی
نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
6۔ اولاد کے جوان ہوجانے پر والدین کی ذمہ داری ہے
کہ ان کی نیک اور صالح خاندان میں شادی کر دیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا نکاح کرو،
بیٹیوں کو سونے اور چاندی سے آراستہ کرو اور انہیں عمدہ لباس پہناؤاور مال کے
ذریعے ان پر احسان کرو تاکہ ان میں رغبت کی جائے۔ (کنز العمال، 16/191،
حدیث: 45424)