اسلام میں طفل کا تصور بلوغت تک ہے چاہے وہ 13 سال کی عمر تک ہو چاہے 16 تک۔ طفل کسی نہ کسی کی اولاد ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کے والدین پر ہوتی ہے۔ اگر والدین نہ کر سکیں تو ریاست پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

(1) والدین کا اولاد کو نیک اخلاقی اور دنیاوی تعلیمات فراہم کرنے کا حق ہے۔

(2) رضاعت کہ ماں کے دودھ نہ ہو تو دائی رکھنا، بے تنخواہ نہ ملے تو تنخواہ دینا واجب، نہ دے تو جبراً لی جائے گی جبکہ بچے کا اپنا مال نہ ہو، یو ہیں ما بعد الطلاق و مرورِ عدت (طلاق اور عدت گزرنے کے بعد) بے تنخواہ دودھ نہ پلائے تو اسے بھی تنخواہ دی جائے گی۔

(3) اپنے نابالغ بچے، پسر خواہ دختر کو غیر کفو سے بیاہ (شادی کر) دینا، یا مہر مثل میں غبن فاحش کے ساتھ (یعنی بہت زیادہ کمی یا زیادتی کے ساتھ نکاح کرنا) مثلاً دختر کا مہر مثل ہزار ہے پانسو پر نکاح۔

(4) حضانت (پرورش) کہ لڑکا سات برس، لڑکی نو برس کی عمر تک جن عورتوں مثلا ماں، نانی، دادی خالہ پھوپی کے پاس رکھے جائیں گے اگر ان میں کوئی بے تنخواہ نہ مانے اور بچہ فقیر اور باپ غنی ہے تو جبراً تنخواہ دلائی جائے گی۔

(5) ان کیلئے ترکہ باقی رکھنا کہ بعد تعلق حق ورثہ یعنی بحالت مرض الموت مورث اس پر مجبور ہوتا ہے یہاں تک کہ ثلث سے زائد میں اس کی وصیت بے اجازت ورثہ نافذ نہیں۔

(6) اولاد کو اخلاقی اور معاشرتی قیمتوں کی تربیت دینے کا حق ہے۔