اسلام میں اولاد کے حقوق بھی مقرر ہیں آئیے حدیث
مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ ہو:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ
کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ہر ذمہ دار سے اسکی رعایا کے بارے میں پوچھے
گا کہ اس نے انکے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا، یا ضائع کردیا، حتی کہ بندے
سے اسکے اہل و عیال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ (صحیح ابن حبان، 6/465 حدیث: 4475)
اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، زندگی کی خوشی
اور مستقبل کی امید ہیں، انسان کے گھر کی رونق اولاد سے ہے، انکی زندگی میں لذت و
سرور، اولاد ہی سے ہے بلکہ شرعی طور پر اولاد ایک ایسا ذخیرہ ہیں کہ انسان کے اس
دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب
انسان مرجاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا فیض انہیں پہنچتا رہتا ہے : صدقہ
جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور نیک اولاد جو اسکے لئے دعا کرے۔ (مسلم،
ص 684، حدیث: 4223)
لیکن کسی بھی باپ و ماں کو یہ نعمت اس وقت حاصل
ہوگی جب وہ اپنے بچوں کے حقوق کو ادا کریں، ذیل میں اولاد کے چند حقوق ذکر کئے
جاتے ہیں:
1۔ ماں کا انتخاب: یہ
وہ پہلا مرحلہ ہے جہاں سے اولاد کے حقوق شروع ہوتے ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد
ہے: اپنے نطفے کیلئے اچھے رحم کا انتخاب کرو چنانچہ کفو میں اپنے مردوں کی شادی کرو اور لڑکیوں کی شادی میں
بھی کفو کا لحاظ رکھو۔ (ابن ماجہ، 2/474، حدیث: 1968)
2۔ زندگی کی حفاظت: یعنی
استقرار حمل کے بعد اسے ضائع کرنے یا ولادت کے بعد اسے قتل کرنے سے پرہیز کریں۔ اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا
اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی
تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا: اللہ کے ساتھ شریک
ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا، میں نے کہا: یہ تو بہت بڑا جرم ہے، پھر
اسکے بعد کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو اپنے بچے کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ
کھائے گا، میں نے عرض کیا: پھر اسکے بعد کیا؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے
ساتھ زنا کرے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، 2/474)
3۔ رضاعت و حضانت: بچپن
اور بلوغت کو پہنچنے کے مرحلے تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے کھلانے پلانے کا
انتظام کریں: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ
لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ
رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة:
233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے
دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔
اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کے گناہ گار
ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی روزی کا ذمہ دار ہے ان کے حقوق ضائع کردے یعنی نان و نفقہ میں کوتاہی کرے۔
4۔ تعلیم و تربیت: اولاد
کا ایک اہم حق یہ ہے کہ والدین انکی تعلیم وتربیت کا خیال رکھیں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا
مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ
یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان:
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی
نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے بچے کو
سات سال کی عمر میں نماز سکھاؤ اور دس سال کی عمر میں اس نماز میں کوتاہی کرنے پر انکی گوش مالی کرو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث:
494)
5۔ عقیقہ اور نام: پیدائش
کے بعد والدین کی سب سےاہم ذمہ داری بچے کا عقیقہ کرنااور اسکے لئے عمدہ نام کا
انتخاب کرنا ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی رہتا ہے،
ساتویں دن اسکی طرف سے عقیقہ کیا جائے، اس سے گندگی کو دور کیا جائے یعنی اسکے بال
اتروائے جائیں اور نام رکھا جائے۔ (ابو داود، 3/141، حدیث: 2837)
اللہ کریم ہمیں شریعت کے احکامات کی پاسداری کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین