اولاد کے حقوق گویا والدین کے فرائض ہیں جس طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہوتے ہے اسی طرح اسلام نے والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق متعین فرمائے ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی فطرت میں اولاد کی محبت پیدا کی ہے لیکن ان کے حقوق کا متعین اسلام نے کر کے انہیں واضح کر دیا اس لیے ضروری ہے کہ والدین پر اولاد کے حقوق کو اسلام کی طرف سے متعینہ طور پر بیان کر دیا جائے اسلام سے پہلے اولاد کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ ان کے والدین بہت برا برتاؤ کیا کرتے تھے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے اور ان سے پیچھا چھڑا لیا کرتے تھے لیکن قرآن  پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے والدین کو اس ناروا ظالمانہ رویے سے روکا اور انہیں اولاد کی پرورش اور تربیت پر آمادہ کیا۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠(۱۴۰) (پ 8، الانعام: 140) ترجمہ کنزالایمان) (واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم کے بیوقوفی سے قتل کردیا اور ان چیزوں کو جو اللہ نے ان کو روزی کے طور پر بخشی تھیں اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا بےشک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو گے۔

والدین پر اولاد کا حق ہے کہ ان کی پرورش کی جائے ان کی محبت اور تندرستی کی حفاظت والدین پر فرض ہے۔ وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔اگر والدین موجود نہ ہوں تو باپ پر یہ فرض عائد کیا گیا کہ اولاد کو دودھ پلانے کا انتظام کرے لڑکے لڑکیوں پر ترجیح نہ دے بلکہ آپ نے لڑکیوں کی پرورش میں فرمایا جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش ان کا بالغ ہونے تک رہا قیامت کے دن میں اور وہ شخص اس طرح قریب ہو گئے جس طرح دو انگلیاں۔ (مسلم، ص 1085، 6695)

حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ) یا بیوہ (ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اس کا کفیل نہیں۔(ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)

حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 دین و شریعت اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں جیسے اولاد کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنا استطاعت کے مطابق ان پر خرچ کرنا وغیرہ آئیے اولاد کے حقوق پر چند حدیث نبوی پڑھتی ہیں:

1۔ والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین دعائیں قبول ہوتی ہیں: ان (کی قبولیت) میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا۔ (ابن ماجہ، 4/281، حدیث: 3862)

3۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور نماز سے غفلت کریں تو اس پر ان کو سزا دو جب دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

4۔ بہترین عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں، وہ قریش کی نیک خواتین ہیں، جو اپنی اولاد کے بچپنے میں اس کا بہت خیال رکھنے والی اور اپنے خاوندوں کے مال و منال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔


رب کائنات نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا جن میں سے اولاد ایک عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اولاد کو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا، بڑھاپے میں ان کا سہارا بنایا اور ان کا مطیع و فرمانبردار رہنے اور ان کی خدمت کا فرض عائد فرمایا وہیں اولاد کے کچھ حقوق والدین کے ذمے لگائے تاکہ فطری تقاضے قائم رہیں اور کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو۔

موجودہ اور آئندہ نسل کی دنیا و آخرت کی بہتری کے لیے اولاد کے ان پانچ حقوق کی ادائیگی بے حد ضروری ہے۔

1۔ وجوداولاد سے پہلے: آدمی کو چاہیے کہ نکاح کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کرے جو دیندار ہو اور اچھے اوصاف والی ہو تا کہ اولادکی اچھی تربیت کر سکے کہ کل کو ماں کی اچھی یا بری خصلتیں اولاد میں بھی منتقل ہوں گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک دنیا بہترین استعمال کی چیز ہے لیکن اس کے باوجود نیک اور صالحہ عورت دنیا کے مال و متاع سے بھی افضل ہے۔ (ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1855)

2۔ اچھا نام رکھنا: بعداز پیدائش بچےکا نام اس کے والدین کی طرف سے پہلا اور بنیادی تحفہ ہوتا ہے۔ بچے کا نام اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے لہذا یونیک(منفرد) نام رکھنے کی بجائے انبیا ءکرام علیہم السلام،اہل بیت اطہار اورصحابہ وصحابیات کے نام رکھے جائیں۔ حضرت ابو دردا ءرضی الله عنہ سے مروی ہے: حضور جان عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آبا ءکے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔ (ابو داود، 4/374، حدیث: 4948)

3۔ تعلیم: معاشرے کی ایک بااثر اور مفید شخصیت بنانے اور معاشرے میں تقلیدی کردار ادا کرنے کے لیے اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ تعلیم کے معاملےمیں علم دین کو تمام علو م پر تر جیح دیں جبھی تو اولاد شریعت کے مطابق بطریق احسن اپنی ذمہ داریاں اور حقوق انجام دینے میں کامیاب ہو سکے گی۔علم دین کے بعد پھر چاہے تو ایسے دنیاوی علوم سکھائے جن میں شریعت کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو۔

4۔ تربیت: اولاد کے نیک یا بد ہونے میں والدین کی تربیت کا بہت دخل ہے۔اللہ رب العزت قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔حضور ﷺ نے یہ آیت مبارکہ جب صحابہ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ ﷺ! ہم اپنے اہل خانہ کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔ (در منثور، 8/225)

4۔ بری صحبت سے بچانا: والدین حکمت عملی کے ساتھ اپنے بچوں کی دوستیوں کا بھی مشاہدہ کرتے رہیں کہ ان کے بچے کیسی صحبت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انکی صحبت ان کے لیے ہلاکت کا ساماں بھی ہوسکتی ہے اور ذریعہ نجا ت بھی بن سکتی ہے۔لہذا انہیں با ادب، با اخلاق، باکردار اورصحیح العقیدہ ہم نشیں مہیا کیجیے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: آدمی اپنے گہرے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس کو گہرا دوست بنائے ہوئے ہے۔ (ابو داود، 4/341، حدیث: 4833)

5۔ جوان ہونے پر شادی کرنا: اس دورِ پرفتن میں والدین کے لیے اس ذمہ داری کو وقت پر انجام دینا بہت ضروری ہے کہ جیسے ہی ان کی اولاد جوان ہو تو انہیں کسی نیک صالح خاندان میں بیاہ دیں اور بلا وجہ تاخیر نہ کریں۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اسے آداب سکھائے جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور لڑکا مبتلائے گناہ ہوا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا۔ (شعیب الایمان، 6/601، حدیث: 8666)

رب کریم سے دعا ہے کہ ہر طرح کے حقوق العباد کواخلاص کے ساتھ پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

اسلام ایسا پیارا اور متوازن نظام والا دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں راہ نما اصول فراہم کرتا ہے۔جس طرح اسلام نے دیگر کے حقوق کے ساتھ ساتھ والدین کے حقوق کو بیان فرمایا تو اولاد کے حقوق کو بھی بیان فرمایا کہ جس طرح اولاد پر ماں باپ کے حقوق ہیں اسی طرح والدین پر اولاد کے حقوق ہیں۔اولاد کے حقوق میں سے چند پیش خدمت ہیں:

1۔ جب بچہ پیدا ہو تو فورا ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے۔ حضرت عبید الله بن ابی رافع اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو حسن بن علی کی ولادت کے وقت ان کے کان میں اذان دیتے ہوئے دیکھا جس طرح نماز میں اذان دی جاتی ہے۔

2۔ یہ بھی بچوں کا حق ہے کہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کا سر منڈا کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو حضور ﷺ نے بذات خود ان کا عقیقہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا کو فرمایا: اے فاطمہ! اس کا سر منڈاؤ اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔

3۔ جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

4۔ ایک حق اولاد کا یہ ہے کہ جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل بتائے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات برس کے ہو جائیں اور نماز سے غفلت برتنے پر ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

5۔ چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں دیں ہر گز کمی و بیشی نہ کریں ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اللہ کریم اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی۔

الله کریم ہمیں حقوق الله کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کے حقوق ادا کرنا ہم پر لازم ہیں۔

دینِ اسلام جہاں والدین کے حقوق ادا کرنے پر زور دیتا ہے وہیں اولاد کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین کرتا ہے۔اولاد اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ انکے حقوق ادا کریں۔ کیونکہ انکے حقوق میں کوتاہی کرنا خیانت ہے۔

اولاد کے حقوق:

زندگی کا حق: والدین پر لازم ہے کہ اولاد کو زندگی کا حق دیں انہیں قتل نہ کریں۔ اسلام سے قبل اہل عرب اپنی اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل کر دیتے تھے،لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن ہمارے پیارے دین اسلام نے اولاد کے حقوق مقرر کر دیئے تاکہ لوگ محض جہالت اور غربت کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ کیونکہ اولاد اللہ پاک کی نعمت ہے اور اللہ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-(پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔

اذان دینا: پیدائش کے بعد اولاد کا ایک حق یہ ہے کہ اسکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے:جب بچّہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان، بائیں میں تکبیر (اقامت)کہے کہ خلل شیطان و امّ الصّبیان سے بچے۔ (فتاویٰ رضویہ،24/452) بہار شریعت میں ہے: جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی جائے اذان کہنے سے ان شاء اللہ بلائیں دور ہوجائیں گی۔ (بہار شریعت،3/355)

اچھا نام رکھنا: اولاد کا اچھا نام رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کا اچھا نام رکھیں۔حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بچے کا اچھا نام رکھا جائے، ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں جن کے کچھ معنیٰ نہیں یا ان کے برے معنیٰ ہیں ایسے ناموں سے احتراز(یعنی پرہیز)کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃو السّلام کے اسمائے طیّبہ(یعنی پاک ناموں)اور صحابہ و تابعین و بزرگان دین(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ ان کی برکت بچے کے شامل حال ہو۔

دودھ اور غذا کا انتظام کرنا: اولاد کا حق ہے کہ والدین انکے لیے دودھ اور غذا کا انتظام کریں۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

تعلیم و تربیت: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوائیں اور انکی اچھی تربیت کریں۔سورہ لقمان میں ہمیں اولاد کی تربیت کا بہترین درس دیا گیا ہے۔ لقمان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى مَاۤ اَصَابَكَؕ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِۚ(۱۷) (پ21، لقمٰن: 17) ترجمہ: اے میرے بیٹے نماز قائم کرو اور نیکی کرنے کا حکم دو اور برائی سے روکو اور تمہیں جو کچھ تکلیف ہو اس پر صبر کرو کیونکہ ایسا کرنا قوت ارادی کی مضبوطی ہے۔

عدل و انصاف کرنا: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں۔ والد کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اور کاروبار وغیرہ کے معاملے میں کسی طرح کی جانبداری سے کام نہ لے بلکہ سب کے ساتھ برابر کرے نیز جائیداد اور زمین وغیرہ اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہے تو عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے سب کو حصّہ دے۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے کچھ عطیہ دیا تو (میری والدہ) حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا بولیں: میں تو راضی نہیں حتّٰی کہ رسول اﷲ ﷺ کو گواہ کر لو تو وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ سے ہے، ایک عطیہ دیا ہے، یا رسول ﷲﷺ! وہ کہتی ہیں کہ میں آپ ﷺ کو گواہ بنالوں۔ فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے بچّوں کو اسی طرح دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ (بخاری، 2/172، حدیث:2587)

شفقت و ہمدردی کا معاملہ: والدین کو چاہیے کہ اولاد کے ساتھ شفقت و ہمدردی والا معاملہ فرمائیں۔چھوٹوں سے پیار و محبت اور شفقت و الفت کا جو برتاؤ آپ ﷺ نے کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ برّاق جیسی اعلیٰ ترین سواری پر سوار ہونے والے آقا ﷺ نے خود اپنے نواسے امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھایا۔ (ترمذی،5/432، حدیث:3809ماخوذاً)

اسی لئے امام حسن رضی اللہ عنہ کو راکب دوش مصطفےٰ بھی کہا جاتا ہے۔

اولاد کو وقت دینا: ہر وقت کی مصروفیت بعض اوقات باپ اور بچّوں میں دوری پیدا کر دیتی ہے۔ جن بچّوں کے باپ انہیں مناسب توجّہ اور وقت نہیں دیتے وہ دیگر گھر والوں سے بھی الگ تھلگ رہنے لگتے ہیں۔ لہٰذا باپ کو چاہئے کہ حتی الامکان بچّوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دے۔

اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے اور انکی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر شریعت نے لازم کیے اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے مقرر ہیں جن پر عمل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے لیکن آج کے دور میں والدین ان حقوق سے روگردانی کرتے ہیں جن کی بنا پر یہی اولاد بعد میں والدین کے لیے آزمائش بن جاتی ہے اگر والدین اولاد کو وہ تمام احکامات جو شریعت نے سکھائے ہیں سکھائیں تو یہی اولاد بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارا بن جائے گی۔

تحنیک یعنی گھٹی کے بارے میں ایک روایت درج ذیل ہے، چنانچہ دور رسالت میں صحابہ کرام کا معمول تھا کہ جب ان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو یہ اسے حضور ﷺ کی بارگاہ میں لاتے اور حضور کھجور اپنے دہن مبارک میں چپا کر بچے کے منہ میں ڈال دیتے جس سے تحنیک کہتے ہیں یوں بچے کو لعاب دہن کی برکتیں بھی نصیب ہو جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت ہے: لوگ اپنے بچوں کو حضور کی بارگاہ اقدس میں لایا کرتے تھے آپ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے اور تحنیک فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم، ص 1184، حدیث: 2157) اسی طرح حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا میں اس کو لے کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور سے گھٹی دی۔ (مسلم، ص 1184، حدیث: 2145)

انہیں احادیث کی بنیاد پر مسلمانوں کا یہ معمول ہے کہ اپنے بچوں کی صالح اور متقی مسلمانوں سے تحنیک کرواتے ہیں۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو شہد یا کسی بھی میٹھی چیز سے تحنیک کی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(۷) (پ 28، الطلاق:7)ترجمہ: صاحب وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے اور جس شخص پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اسی (روزی) میں سے (بطور نفقہ) خرچ کرے جو اسے اللہ نے عطا فرمائی ہے، اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکم بھی نگہبان ہے، رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)

اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش، ضروریات زندگی، گرمی سردی سے بچاؤ، بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا اچھا اہتمام کریں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔ (ابن ماجہ 4/189، حدیث: 3670) پرورش کے ضمن میں خوراک، لباس، صاف ستھرا ماحول، محبت وشفقت کا رویہ ہے

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں والدین و اولاد کے حقوق کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان حقوق کی ادائیگی میں غلطیوں و کوتاہیوں سے محفوظ فرمائے۔

جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر شریعت نے لازم کیے اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے مقرر ہیں جن پر عمل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے لیکن آج کے دور میں والدین ان حقوق سے روگردانی کرتے ہیں جن کی بنا پر یہی اولاد بعد میں والدین کے لیے آزمائش بن جاتی ہے اگر والدین اولاد کو وہ تمام احکامات جو شریعت نے سکھائے ہیں سکھائیں تو یہی اولاد بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارا بن جائے گی۔

آئیے ہم اولاد کے کچھ حقوق کے متعلق جانتے ہیں:

(1) جب بچہ پیدا ہو تو اس کا اچھا نام رکھے ہو سکے تو عقیقہ کرے سر کے بال منڈوائے اور بچے کے کان میں اذان دے جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان واقامت کہی جائے اذان کہنے سے ان شاء اللہ بلائیں دور ہوجائیں گی۔ امام عالی مقام حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار والا تبار ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جس شخص کے ہاں بچّہ پید ا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچّہ امّ الصبیان سے محفوظ رہے گا۔ (مسند ابی یعلیٰ، 6/32، حدیث: 6747)

حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: اچھوں کے نام پر نام رکھو اور اپنی حاجتیں اچھے چہرے والوں سے طلب کرو۔ (فردوس بمأثور الخطّاب، 2/58، حدیث: 2329)

افضل نام محمد رکھنا ہے کہ حدیث مبارکہ میں بھی اسکی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبّت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے والا والد) اور اس کا لڑکا دونوں بہشت(یعنی جنّت) میں جائیں گے۔ (کنز العمال، 16/175، حدیث: 45215)

(2) بچے کو ادب سکھائے اللہ کے محبوب ﷺ کا فرمان ہے: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے اور وہ اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

(3) اولاد کو قرآن پاک سکھائے۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہل بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)

حضورپاک، صاحب لولاک ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن کریم پڑھنا سکھایابروز قیامت اسے جنت میں ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کے سبب اہل جنت جان لیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اپنے بیٹے کو قرآن کریم کی تعلیم دی تھی۔

(4) سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردے حضرت ابن عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بچے کو نماز کیلئے بیدار کرو اگرچہ ایک ہی سجدہ کرلیں۔ (مصنف عبد الرزاق،4/120، رقم: 7328)

(5) جب جوان ہوشادی کردے،شادی میں وہی رعایت قوم ودین وسیرت وصورت ملحوظ رکھے اولاد کے جوان ہوجانے پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی نیک اور صالح خاندان میں شادی کر دیں۔ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا نکاح کرو، بیٹیوں کو سونے اور چاندی سے آراستہ کرو اور انہیں عمدہ لباس پہناؤاور مال کے ذریعے ان پر احسان کرو تاکہ ان میں رغبت کی جائے (یعنی ان کے لئے نکاح کے پیغام آئیں)۔ (کنز العمال، 16/191، حدیث 45424)

اولاد کے جوان ہونے پر بلاوجہ نکاح میں تاخیرنہ کی جائے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے آداب سکھائے، جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کر دے، اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور لڑکا مبتلائے گناہ ہوا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا۔ (شعب الایمان، 6/401، حدیث: 8666)

اس کے علاوہ بھی اولاد کے بے شمار حقوق ہیں جیسے اولاد کے دل میں پیارے آقا ﷺ اور صحابہ کرام و اہل بیت اطہار کی محبت ڈالے، بچہ کو پاک کمائی سے پاک روزی کھلائے اولاد کو چھوڑ کر اکیلے نہ کھائے بلکہ اپنی خواہش کو ان کی خواہش کے تابع رکھے چند بچے ہوں تو سب کو برابر و یکساں دے، ایک کو دوسرے پر دینی فضیلت کے علاوہ ترجیح نہ دے بہلانے کیلئے جھوٹا وعدہ نہ کرے اور وہ بیمار ہوں تو ان کا علاج کروائے وغیرہ۔

والدین کی ایک تعدادہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے، تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔

ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور شریعت کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اسلام نے جہاں والدین، رشتہ دار اور پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے ہیں۔ وہی اولاد کے حقوق کو ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں۔ اگرچہ ان حقوق میں سے اکثر کی ادائیگی والدین پر واجب نہیں لیکن اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا، انہیں سچا مسلمان بنانا، دنیا اور آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور خود بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو پھر ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اولاد کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

1) حضور ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

2) اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں ہے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

3) اپنی اولاد کو برابر دو اگر میں کسی کو فضیلت دیتا تو لڑکیوں کو فضیلت دیتا۔

4) جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل پاس پاس ہوں گے یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی انگلیاں ملا کر فرمایا کہ اس طرح۔ (مسلم، ص 1085، 6695)

5) کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اور وہ اپنی اس لڑکے پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ ائی اور تمہارے سوا کوئی اس کا کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)

اسی طرح حضور ﷺ نے اولاد کے حقوق کو ادا کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: باپ کے ذمے میں اولاد کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمہ باپ کے حقوق ہیں۔

اسی طرح ایک اور جگہ حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دین اسلام میں کس قدر حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھنے کی تلقین کی گئی ہے اولاد کے حقوق میں سب سے پہلا حق وجود اولاد یعنی اولاد کی پیدائش سے بھی پہلے یہ ہے کہ آدمی اپنا نکاح رزیل قوم یعنی نیچ ذات سے نہ کرے کہ بری رگ یعنی بری نسل ضرور رنگ لاتی ہے۔ ایک یہ کہ جب بچہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان یعنی شیطانی وسوسے اور ام الصبیان سے بچے۔

ایک یہ کہ چھوہارا وغیرہ کوئی میٹھی چیز چبا کر اس کے منہ میں ڈالے کہ حلاوت اخلاق کی فالح حسن ہے یعنی مٹھاس اخلاق کے اچھے ہونے میں نیک شگون ہے۔

ایک یہ کہ بچے کا نفقہ اس کی حاجت کے سب سامان مہیا کرنا خود واجب ہے جن میں حفاظت بھی داخل ہے۔

بیمار ہو تو علاج کرے۔

اسی طرح دین اسلام میں اولاد کے بہت حقوق بیان کیے ہیں اللہ پاک ہمیں سب کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ پاک کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے سے پہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ایسے ہی ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ شیرخوارگی سے لڑکپن اور جوانی کے مراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہے اس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔

والدین پر اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

1۔ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیار ومحبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔

2۔ جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل ان کو بتائیں۔

3۔ بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔

4۔ اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔

5۔ تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں اور تربیت کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں اور بچوں بچیوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے اگر ماں اپنے اس حق کو نہ ادا کرے گی تو گناہ گار ہوگی!

اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں والدین کو درج ذیل امور کا بطور خاص لحاظ کرنا چاہیے:

(1) ان کے عقائد کی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔

(2) ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔

(3) ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔

(4) ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ چاروں چیز میں دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں، جیسے عقائد کی درستی دنیا میں بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تو وہ جہنم میں جانے کا مستحق ہو گیا اور جو کفر کی حالت میں مر گیا وہ تو ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا۔ اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں گے تو دنیا میں نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں اور آخرت میں جنت میں جانے کا وسیلہ ہیں اور اگر درست نہ ہوں گے تو دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامان ہیں اور آخرت میں جہنم میں جانے کا ذریعہ ہیں، یونہی اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اسکی عزت کریں گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں معاشرے میں اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہوگا اور اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں۔

افسوس ! ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بچہ دنیا کی تعلیم اور دنیا داری میں کتنا اچھا اور چالاک، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں کہ اس کے عقائد و نظریات کیا ہیں اور اس کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جارہے ہیں۔ والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کے منصب، عزت، دولت اور شہرت حاصل کر کے دنیا کی زندگی میں کامیاب انسان بنے لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو، اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں اور اس کا طرز زندگی اللہ تعالیٰ اور اس حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولا د دنیا میں خوب ترقی کرے تا کہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سنور جائے اور انہیں بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ ان کی اولا د قبر کی زندگی میں ان کے چین کا باعث بنے اور آخرت میں ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔ جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں کا حصول ہے، ان کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (پ 12، ہود: 15، 16) ترجمہ كنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہو تو ہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا۔

اولاد کے اپنے والدین پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے 5 حقوق بیان کیے جاتے ہیں:

1۔ اولاد کا نام: والدین پر اولاد کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ ان کا اچھا نام رکھیں، کیونکہ انسان پر نام کا اثر ظاہر ہوتا ہے، نام انسان کے مزاج میں تبدیلی لاتا ہے، اس کی عادات و اطوار پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے، اچھے اور عمدہ معنی والے نام انسان کو مثبت سوچ کا حامل بناتے ہیں جبکہ برے نام انسان کو منفی سوچ میں ڈوبا رکھتے ہیں۔ نام اگر خوبصورت چیز سے وابستہ ہو تو سرور حاصل ہوتا ہے۔ نام اگر قابل احترام ہستی سے وابستہ ہو تو سن کر دل و نگاہ عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔ جیسے پیارے آقا ﷺ کا نام مبارک نام محمد (ﷺ) کہ آپ ﷺ کا نام رکھنے سے باپ اور بیٹے دونوں کو پیارے آقا ﷺ نے خود جنت کی بشارت ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ

اس ضمن میں چار فرامین صادق و امین ﷺ پیش خدمت ہیں:

جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے والا والد)اور اس کا لڑکا دونوں بہشت(یعنی جنّت) میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

روز قیامت دو شخص ربّ العزّت کے حضور کھڑے کئے جائیں گے۔ حکم ہو گا: انہیں جنّت میں لے جاؤ۔ عرض کریں گے: الٰہی! ہم کس عمل پر جنّت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو جنّت کا کوئی کام کیا نہیں! فرمائے گا: جنّت میں جاؤ، میں نے حلف کیا (یعنی قسم فرمائی)ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا۔ (فردوس بمأثور الخطّاب، 5/485، حدیث: 8837)

تم میں کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے گھر میں ایک محمد یا دو محمد یا تین محمد ہوں۔ (طبقات کبریٰ، 5/ 40)

جب لڑکے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزّت کرو اور مجلس میں اس کیلئے جگہ کشادہ کرو اور اسے برائی کی طرف نسبت نہ کرو۔ (جامع صغیر، ص49، حدیث: 706)

2۔ اولاد کی پرورش: اولاد کا یہ حق ہے کہ انکے والدین انکی بہترین پرورش کریں۔ انکو اچھے برے کی تمیز سکھائیں۔ انکو گناہوں سے دور اور نیکیوں کے قریب کریں کہ یہ بچوں کا حق ہے اگر خدا نخواستہ آخرت میں گناہوں کی وجہ سے انکی پکڑ ہو گئی تو وہ اپنے والدین کا ہی گریبان پکڑیں گے تب کچھ نہ کر سکیں گے بہتر ہے ابھی ہی انکی اچھی تربیت کی جائے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں ہے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

3۔ اولاد کی تعلیم: اولاد کا یہ حق ہے کہ ان کے والدین ان کو دینی و دنیاوی بہترین تعلیم سے نوازیں۔ انکو دنیاوی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات جیسے فرض علوم نماز، روزہ، زکوٰۃ، پاکی کے مسائل، کفریات کا علم، عقائد کا علم، اور دیگر ان جیسے ضروری مسائل سے انکو روشناس کریں۔ انکو عالم دین بنائیں کہ آخرت میں اپنے والدین کے لیے ذریعہ نجات بنیں۔ نہ صرف علم سکھائیں انکے عمل پر بھی متوجہ ہوں کہ بچے کو عبادت کا عادی بنائیں اور جہنم سے نجات دیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم دو۔ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

یہاں روزے کو بھی نماز پر قیاس کیا جائے گا۔ جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے تو اسے روزہ رکھنے کے لیے بھی کہا جائے۔ عادت ڈالنے کے لیے اس سے روزے رکھوائے جائیں۔ باپ کے پاس گنجائش ہو تو بچے کو حج بھی کروایا جائے۔ اسی طرح ہی دیگر احکام کا معاملہ ہے، اس میں حکمت یہی ہے کہ بچہ شروع ہی سے یہ احکام سیکھ لے اور نوعمری سے ہی ان کو ادا کرنے کا عادی بن جائے۔

4۔ اولاد کی تربیت: اولاد کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ انکو ادب و احترام سکھایا جائے۔ بچوں کو معلوم ہو کہ بڑوں سے کیسے بات کرتے اور چھوٹوں پر کیسے شفقت کرتے۔ انکو بچپن ہی سے اچھے اخلاق کی تربیت دیں کہ بڑے ہونے تک ان میں ادب و احترام بس جائے۔ حدیث مبارکہ میں اپنی اولاد کو ادب سکھانے کو صدقہ فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

5۔ اولاد کا اکرام: اولاد کے حقوق میں سے ہے کہ والدین سب سے برابر کی محبت کریں یوں نہیں ہو کہ کچھ بچے زیادہ عزیز ہیں۔ سب کے ساتھ یکساں رویہ رکھا جائے۔ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ بیٹیوں کے ساتھ کچھ اچھا رویّہ نہیں رکھا جاتا جبکہ یہ بہت بری بات ہے کیونکہ احادیث مبارکہ میں بیٹیوں کی پرورش پر بہت سی فضیلتیں وارد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل اس پاس ہوں گے، یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا کہ اس طرح۔ (مسلم، ص 1085، 6695)

جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کر دے (یعنی وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح ہو جائے) تو پرورش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اور دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو کا ثواب بھی یہی ہے۔ (راوی کہتے ہیں) اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں دریافت کرتے تو ایک کی نسبت بھی حضور ﷺ یہی فرماتے۔ (مشكوة المصابیح، 2/214، حدیث: 4975)

نہ صرف حدیث مبارکہ میں شادی سے پہلے بیٹیوں کی پرورش کی فضیلتیں ہیں بلکہ شادی کے بعد بھی اگر بیٹی بیوہ یا مطلقہ ہو جاتی ہے تب بھی اس کی دیکھ بھال کا ثواب وارد ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا اس کا کوئی کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں اولاد کے صحیح طور پر حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اور ہماری اولاد اور ہمارے اہل و عیال بلکہ تمام امت مسلمہ کی بےحساب بخشش و مغفرت فرمائے۔

اولاد کے حقوق کی بات کی جائے تو بالغ اور نابالغ ساری اولاد کو اچھی باتیں سکھانا والدین کا پہلا فرض اور اولاد کا حق  ہے۔ زبان کھلنے کے بعد اللہ کا نام سکھائیے۔ جب بچہ شیر خوار عمر سے نکل کر ذرا ہوشیار ہوجائے اور زبان کھولنے لگے تو سب سے پہلے خالق ومالک کا اسم ذات اللہ سکھانا چاہیے اور پھر کلمہ طیبہ کا سیکھنا لازم کیا جائے نیز جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے روایت ہے حضرت سعد سے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ کلمات سکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول الله ﷺ نماز کےبعد ان سے تعوذ کرتے تھے الٰہی میں بزدلی سے تیری پناہ لیتا ہوں اور کنجوسی سے تیری پناہ اور ردی عمر سے تیری پناہ اور دنیا کے فتنوں اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

ضروری علم دین سکھائیے والدین کو چاہیے جب اولاد شعور کو پہنچ جائے تو اسے اللہ تعالیٰ فرشتوں آسمانی کتابوں انبیائے کرام علیہم السلام قیامت اور جنت و دوزخ کے بارے میں عقائد اہلسنت سکھائیے۔ پھر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو خوف خدا اور محبت سرور کائنات سے آشنا کروائے۔ پیارے آقا ﷺ کی مکمل سیرت مبارکہ پڑھائیے۔ کیونکہ آپکی یہ ننھی سی صورت محض ایک بچہ نہیں بلکہ آئندہ معاشرے کی کامل تصویر ہے۔ دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے ان کی نس نس میں عشق رسول بسا دیجیے۔ کیونکہ یہی قوت ہے جو مسلمان کو کبھی پست و ناکام نہیں ہونے دیتی۔

اس کے لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے علم و عمل پر توجہ دیں اپنی اولاد کو کامل مسلمان بنانے کے لیے دین کے پیروکار بنیں گے تو اولاد کی صحیح معنی میں نیک تربیت کر سکیں گے اولاد کو صحابہ کرام کی عقیدت اللہ کے ولیوں کا ادب سکھائیے۔ افسوس فی زمانہ دنیاوی علوم فنون تو بہت سکھائے جاتے ہیں مگر سنتیں سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ کم از کم اولاد کو نماز و روزہ کے مسائل دیگر فرائض و واجبات حلال و حرام حقوق العباد وغیرہ کے شرعی احکام سکھائیں۔

اولاد کے حق میں ہے کہ ان کو آداب زندگی سکھائے جائیں۔

اپنی اولاد کو نافرمانی سے بچائیے اولاد پر والدین کی اطاعت واجب ہے۔ اس لئے اگر وہ والدین کا حکم نہیں مانیں گے تو گناہگار ہوں گے۔ والدین کو چاہیے کہ جب بھی اپنی اولاد سے کوئی کام کہیں مشورۃ کہیں حکماً نہ کہیں۔ تنبیہ الغافلین میں ہے کہ ایک بزرگ اپنے بچے کو براہ راست کوئی کام نہیں کہتے تھے بلکہ جب ضرورت پیش آتی تو کسی اور کے ذریعے کہلواتے۔ جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمانے لگے۔ ہوسکتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو کسی کام کا کہوں اور وہ نہ مانے تو (والد کی نافرمانی کے سبب) آگ کا مستحق ہو جائے اور میں اپنے بیٹے کو آگ میں نہیں جلانا چاہتا۔ (تربیت اولاد، ص 174)

اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ پر دل کھول کر خرچ کیجیے اور بشارت سرور عالم ﷺ کے حق دار بنئے۔ چنانچہ حضرت امامہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ناجائز اور مشتبہ چیز سے بچتے ہوئے خود پر خرچہ کرے گا تو یہ صدقہ ہے اور جو کچھ اپنی بیوی، اولاد اور گھر والوں پر خرچ کرے تو صدقہ ہے۔ (تربیت اولاد، ص 91)

جیسا کہ روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول اﷲ ﷺ نے کہ مسلمانوں میں بڑے کامل ایمان والا وہ ہے جو سب میں اچھے اخلاق والا اپنے بال بچوں پر مہربان ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 1/598، حدیث 3263)

تکمیل ضروریات اور آسائشوں کے حصول کے لیے ہرگز ہرگز حرام کمائی کے جال میں نہ پھنسیں کہ یہ آپکے اور اہل عیال کے لیے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث ہے۔

اولاد جوان ہو جائے تو جلد شادی کر دیجئے اولاد کے جوان ہو جانے پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ ان کی جلد نیک خاندان میں شادی کر دیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا نکاح کرو، بیٹیوں کو سونے اور چاندی سے آراستہ کرو اور انہیں عمدہ لباس پہناؤ اور مال کے ذریعے ان پر احسان کرو تا کہ ان میں رغبت کی جائے (یعنی ان کے لئے نکاح کے پیام آئیں)۔ (کنز العمال، 16/191، حدیث 45424) اولاد کے جوان ہونے پر بلا وجہ نکاح میں تاخیر نہ کی جائے۔ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے آداب سکھائے، جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور اولاد نے گناہ کیا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر ایک کے حقوق احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اولاد کو بھی ماں باپ کی نافرمانی سے بچائے اور ہماری آئندہ نسلوں کو عاشق رسول ﷺ بنائے۔ آمین ثم آمین

الحمدللہ اللہ پاک نے جہاں والدین کے حقوق رکھے ہیں وہی اولاد کے بھی بے شمار حقوق ہیں جن میں سے چند ان شاء اللہ بیان کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

حق نمبر 1: جب پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دی جائے شیطان سے دور رہے گا اور ہو سکے تو بچے کا عقیقہ ساتویں 21ویں یا تیرویں دن کر دیجئے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب عقیقے کا جانور ذبح کیا جائے تو اس جانور کی اون لے کر اس جانور کی رگوں کے سامنے کر دی جائے پھر اسے بچے کے سر پر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ دھاگے کی مثل خون اس سے باہر نکلے اس کے بعد اس کے سر کو دھو دیا جائے اور حلق کر دیا جائے۔

ایک اور فرمان ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی عقیقے سے گروی ہے ساتویں دن ان کے لیے کوئی جانور ذبح کیا جائے اس اور اس کا سر منڈایا جائے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 582) لڑکے کے لیے دو بکرے اور لڑکی کے لیے ایک بکری ذبح کی جائے۔

حق نمبر 2: بچوں کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ بچوں سے محبت کی جائے ان کے کاموں میں کراہت محسوس نہ کی جائے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اسامہ کا منہ دھو ڈالو میں نے کراہت سے اس کا منہ دھونا شروع کیا تو حضور ﷺ نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور اسامہ کو پکڑ کر ان کا منہ دھویا پھر اس کے چہرے کو بوسہ دیا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 583)

حق نمبر 3: زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر لا الہ الا اللہ پھر پورا کلمہ طیبہ سکھائیں جب تمیز آئے انہیں ادب سکھائیں کھانے پینے ہنسنے بولنے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے حیا اور لحاظ بزرگوں کا احترام ماں باپ استاد کا ادب سکھائیں بچی ہو تو خاوند کی تعظیم بھی سکھائیں قرآن مجید پڑھائیں نیکوں کی صحبت میں بٹھائیں بری صحبت سے بچائیں، حضور پر نور ﷺ کے آل و اصحاب اولیاء علماء کرام کی محبت اور عظمت کی تعلیم دے سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دیں بری صحبت میں ہرگز بیٹھنے نہ دیں، اگر سزا دینا مقصود ہو تو منہ پر نہ مارے جب بچہ 10 سال کا ہو جائے تو اسے مار کر نماز پڑھائیں جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو اسے اپنے ساتھ یا کسی کے ساتھ نہ سلائیں بلکہ علیحدہ بستر پر سلائیں جوان ہوں تو شادی کر دیں شادی کی رسومات شرعی ہوں سورہ مائدہ کی تعلیم دیں بیٹی کو سورہ نور کی تعلیم دیں، بیٹی کو نکاح وغیرہ کرنے اور شرعی پردہ کرنے کی تاکید کریں غیر محرموں سے غیر ضروری بات نہ کرنے دیں۔ (اولاد کے حقوق، ص 93 تا 95)

حق نمبر 4: اللہ پاک قرآن پاک میں پارہ نمبر 14 آیت نمبر 53 میں حضرت ابراہیم ﷺ کو عالم بیٹے کی بشارت دیتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم بیٹا اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے اس میں ہر مسلمان کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کا علم بھی سکھائے اور اس علم کو سکھانے میں اس سے زیادہ توجہ دے جتنی دنیا کا علم سکھانے پر توجہ دیتا ہے افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر اور اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اپنے بیٹوں میں سے جسے ہوشیار ذہین دیکھتے ہیں اسے دنیا کی تعلیم دلواتے اس کے لیے ماہر اساتذہ اور اونچے درجے کے اسکول کا انتخاب کرتے ہیں اور دن رات دنیاوی علم و فنون میں اس کی ترقی کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے دلوائی گئی دینی تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسے ان عقائد کا علم نہیں ہوتا جن پر مسلمان کے دین و ایمان اور اخروی نجات کا دارومدار ہے مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اسے قرآن مجید تک صحیح پڑھنا نہیں آتا فرض عبادات سے متعلق بنیادی باتیں نہیں جانتا نماز روزے اور حج زکوۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیاوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے اکثر دین اسلام ہی سے بیزار اور اس کے بنیادی احکام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے نظر آتے ہیں یہ تو ہوشیار و ذہین بیٹے کے ساتھ طرز عمل ہے جبکہ اس کے برعکس جو بیٹا جسمانی معذوری یا ذہنی کمزوری کا شکار ہو اسے دنیا کی تعلیم دلوانے کی طرف توجہ کرنے اور اس پر اپنا مال خرچ کرنے کو بیکار اور فضول سمجھتے ہیں اور اسے کسی دینی مدرسے میں داخل کروا کر اپنے سر سے بوجھ اتار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین

حق نمبر 5: جب بیٹی پیدا ہو تو برے برے منہ نہ بنائیے کہ ایسا کرنا کفار کا کام ہے، اللہ پاک قرآن کریم پارہ 14 آیت نمبر 58 سورہ نحل میں فرماتا ہے وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) ترجمہ کنز الایمان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا طریقہ ہے فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارکباد ملنے پر بھڑک جانے، مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت سی فضیلتیں ہیں۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کسی شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاں فرشتے کو بھیجتا ہے وہ آ کر کہتا ہے: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے احاطہ کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک کمزور لڑکی ایک کمزور عورت سے پیدا ہوئی جو اس کی کفالت کرے گا تو قیامت کے دن اس کی مدد کی جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل سلیم عطا کرے اور جس طرح وہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اسی طرح بیٹی پیدا ہونے پر بھی خوشی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین