جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر شریعت نے لازم کیے اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے مقرر ہیں جن پر عمل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے لیکن آج کے دور میں والدین ان حقوق سے روگردانی کرتے ہیں جن کی بنا پر یہی اولاد بعد میں والدین کے لیے آزمائش بن جاتی ہے اگر والدین اولاد کو وہ تمام احکامات جو شریعت نے سکھائے ہیں سکھائیں تو یہی اولاد بڑھاپے میں والدین کے لیے سہارا بن جائے گی۔

تحنیک یعنی گھٹی کے بارے میں ایک روایت درج ذیل ہے، چنانچہ دور رسالت میں صحابہ کرام کا معمول تھا کہ جب ان کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو یہ اسے حضور ﷺ کی بارگاہ میں لاتے اور حضور کھجور اپنے دہن مبارک میں چپا کر بچے کے منہ میں ڈال دیتے جس سے تحنیک کہتے ہیں یوں بچے کو لعاب دہن کی برکتیں بھی نصیب ہو جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے روایت ہے: لوگ اپنے بچوں کو حضور کی بارگاہ اقدس میں لایا کرتے تھے آپ ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے اور تحنیک فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم، ص 1184، حدیث: 2157) اسی طرح حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں: میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا میں اس کو لے کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور اسے کھجور سے گھٹی دی۔ (مسلم، ص 1184، حدیث: 2145)

انہیں احادیث کی بنیاد پر مسلمانوں کا یہ معمول ہے کہ اپنے بچوں کی صالح اور متقی مسلمانوں سے تحنیک کرواتے ہیں۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو شہد یا کسی بھی میٹھی چیز سے تحنیک کی جا سکتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(۷) (پ 28، الطلاق:7)ترجمہ: صاحب وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے اور جس شخص پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اسی (روزی) میں سے (بطور نفقہ) خرچ کرے جو اسے اللہ نے عطا فرمائی ہے، اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکم بھی نگہبان ہے، رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)

اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش، ضروریات زندگی، گرمی سردی سے بچاؤ، بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا اچھا اہتمام کریں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اکرمﷺ نے فرمایا: جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔ (ابن ماجہ 4/189، حدیث: 3670) پرورش کے ضمن میں خوراک، لباس، صاف ستھرا ماحول، محبت وشفقت کا رویہ ہے

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں والدین و اولاد کے حقوق کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان حقوق کی ادائیگی میں غلطیوں و کوتاہیوں سے محفوظ فرمائے۔