الحمدللہ اللہ پاک نے جہاں والدین کے حقوق رکھے ہیں
وہی اولاد کے بھی بے شمار حقوق ہیں جن میں سے چند ان شاء اللہ بیان کیے جاتے ہیں
ملاحظہ فرمائیں:
حق نمبر 1: جب پیدا ہو
تو اس کے کان میں اذان دی جائے شیطان سے دور رہے گا اور ہو سکے تو بچے کا عقیقہ
ساتویں 21ویں یا تیرویں دن کر دیجئے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب
عقیقے کا جانور ذبح کیا جائے تو اس جانور کی اون لے کر اس جانور کی رگوں کے سامنے
کر دی جائے پھر اسے بچے کے سر پر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ دھاگے کی مثل خون اس سے
باہر نکلے اس کے بعد اس کے سر کو دھو دیا جائے اور حلق کر دیا جائے۔
ایک اور فرمان ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی عقیقے سے
گروی ہے ساتویں دن ان کے لیے کوئی جانور ذبح کیا جائے اس اور اس کا سر منڈایا جائے۔
(مکاشفۃ القلوب، ص 582) لڑکے کے لیے دو بکرے اور لڑکی کے لیے ایک بکری ذبح کی
جائے۔
حق نمبر 2: بچوں کے حقوق
میں یہ بھی شامل ہے کہ بچوں سے محبت کی جائے ان کے کاموں میں کراہت محسوس نہ کی
جائے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے مجھ سے
فرمایا کہ اسامہ کا منہ دھو ڈالو میں نے کراہت سے اس کا منہ دھونا شروع کیا تو
حضور ﷺ نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور اسامہ کو پکڑ کر ان کا منہ دھویا پھر اس کے چہرے کو بوسہ دیا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص
583)
حق نمبر 3: زبان کھلتے ہی
اللہ اللہ پھر لا الہ الا اللہ پھر پورا کلمہ طیبہ سکھائیں جب تمیز آئے انہیں ادب
سکھائیں کھانے پینے ہنسنے بولنے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے حیا اور لحاظ بزرگوں کا
احترام ماں باپ استاد کا ادب سکھائیں بچی ہو تو خاوند کی تعظیم بھی سکھائیں قرآن مجید پڑھائیں نیکوں کی صحبت میں بٹھائیں بری
صحبت سے بچائیں، حضور پر نور ﷺ کے آل و اصحاب اولیاء علماء کرام کی محبت اور عظمت
کی تعلیم دے سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دیں بری صحبت میں ہرگز
بیٹھنے نہ دیں، اگر سزا دینا مقصود ہو تو منہ پر نہ مارے جب بچہ 10 سال کا ہو جائے
تو اسے مار کر نماز پڑھائیں جب بچہ دس سال کا ہو جائے تو اسے اپنے ساتھ یا کسی کے
ساتھ نہ سلائیں بلکہ علیحدہ بستر پر سلائیں جوان ہوں تو شادی کر دیں شادی کی
رسومات شرعی ہوں سورہ مائدہ کی تعلیم دیں بیٹی کو سورہ نور کی تعلیم دیں، بیٹی کو
نکاح وغیرہ کرنے اور شرعی پردہ کرنے کی تاکید کریں غیر محرموں سے غیر ضروری بات نہ
کرنے دیں۔ (اولاد کے حقوق، ص 93 تا 95)
حق نمبر 4: اللہ پاک قرآن
پاک میں پارہ نمبر 14 آیت نمبر 53 میں
حضرت ابراہیم ﷺ کو عالم بیٹے کی بشارت دیتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم
بیٹا اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے اس میں ہر مسلمان کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنی اولاد
کو دین کا علم بھی سکھائے اور اس علم کو سکھانے میں اس سے زیادہ توجہ دے جتنی دنیا
کا علم سکھانے پر توجہ دیتا ہے افسوس فی زمانہ مسلمان دین کا علم حاصل کی ہوئی
اولاد جیسی عظیم نعمت کی قدر اور اہمیت کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اپنے بیٹوں میں
سے جسے ہوشیار ذہین دیکھتے ہیں اسے دنیا کی تعلیم دلواتے اس کے لیے ماہر اساتذہ
اور اونچے درجے کے اسکول کا انتخاب کرتے ہیں اور دن رات دنیاوی علم و فنون میں اس
کی ترقی کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے دلوائی گئی دینی
تعلیم کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسے ان عقائد کا علم نہیں ہوتا جن پر مسلمان کے دین و
ایمان اور اخروی نجات کا دارومدار ہے مسلمان کی اولاد ہونے کے باوجود اسے قرآن مجید تک صحیح پڑھنا نہیں آتا فرض عبادات سے
متعلق بنیادی باتیں نہیں جانتا نماز روزے اور حج زکوۃ کی ادائیگی ٹھیک طرح نہیں کر
پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صرف دنیاوی علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے اکثر دین
اسلام ہی سے بیزار اور اس کے بنیادی احکام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے نظر آتے
ہیں یہ تو ہوشیار و ذہین بیٹے کے ساتھ طرز عمل ہے جبکہ اس کے برعکس جو بیٹا جسمانی
معذوری یا ذہنی کمزوری کا شکار ہو اسے دنیا کی تعلیم دلوانے کی طرف توجہ کرنے اور
اس پر اپنا مال خرچ کرنے کو بیکار اور فضول سمجھتے ہیں اور اسے کسی دینی مدرسے میں
داخل کروا کر اپنے سر سے بوجھ اتار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب
فرمائے۔ آمین
حق نمبر 5: جب بیٹی پیدا
ہو تو برے برے منہ نہ بنائیے کہ ایسا کرنا کفار کا کام ہے، اللہ پاک قرآن کریم پارہ 14 آیت نمبر 58 سورہ نحل میں فرماتا
ہے وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا
وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) ترجمہ کنز الایمان: اور جب ان میں کسی
کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ
کھاتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا
کافروں کا طریقہ ہے فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہو جانے،
چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارکباد ملنے پر بھڑک جانے، مبارک باد دینے والے
کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے،
صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے
تک کی وبا عام ہے، حالانکہ بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت سی فضیلتیں
ہیں۔