رب کائنات نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا جن
میں سے اولاد ایک عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اولاد کو والدین کی آنکھوں کی
ٹھنڈک بنایا، بڑھاپے میں ان کا سہارا بنایا اور ان کا مطیع و فرمانبردار رہنے اور
ان کی خدمت کا فرض عائد فرمایا وہیں اولاد کے کچھ حقوق والدین کے ذمے لگائے تاکہ
فطری تقاضے قائم رہیں اور کسی فریق کی حق تلفی نہ ہو۔
موجودہ اور آئندہ نسل کی دنیا و آخرت کی بہتری کے
لیے اولاد کے ان پانچ حقوق کی ادائیگی بے حد ضروری ہے۔
1۔ وجوداولاد سے پہلے: آدمی
کو چاہیے کہ نکاح کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کرے جو دیندار ہو اور اچھے اوصاف
والی ہو تا کہ اولادکی اچھی تربیت کر سکے کہ کل کو ماں کی اچھی یا بری خصلتیں
اولاد میں بھی منتقل ہوں گی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور
ﷺ نے فرمایا: بے شک دنیا بہترین استعمال کی چیز ہے لیکن اس کے باوجود نیک اور
صالحہ عورت دنیا کے مال و متاع سے بھی افضل ہے۔ (ابن ماجہ، 2/412، حدیث: 1855)
2۔ اچھا نام رکھنا: بعداز
پیدائش بچےکا نام اس کے والدین کی طرف سے پہلا اور بنیادی تحفہ ہوتا ہے۔ بچے کا
نام اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے لہذا یونیک(منفرد) نام رکھنے کی بجائے انبیا
ءکرام علیہم السلام،اہل بیت اطہار اورصحابہ وصحابیات کے نام رکھے جائیں۔ حضرت ابو
دردا ءرضی الله عنہ سے مروی ہے: حضور جان عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تم
اپنے اور اپنے آبا ءکے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔ (ابو
داود، 4/374، حدیث: 4948)
3۔ تعلیم: معاشرے کی
ایک بااثر اور مفید شخصیت بنانے اور معاشرے میں تقلیدی کردار ادا کرنے کے لیے
اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ تعلیم کے
معاملےمیں علم دین کو تمام علو م پر تر جیح دیں جبھی تو اولاد شریعت کے مطابق
بطریق احسن اپنی ذمہ داریاں اور حقوق انجام دینے میں کامیاب ہو سکے گی۔علم دین کے
بعد پھر چاہے تو ایسے دنیاوی علوم سکھائے جن میں شریعت کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو۔
4۔ تربیت: اولاد کے نیک
یا بد ہونے میں والدین کی تربیت کا بہت دخل ہے۔اللہ رب العزت قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ
اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا
مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ
یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان:
اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی
اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی
نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔حضور ﷺ نے یہ آیت مبارکہ
جب صحابہ کرام کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ ﷺ! ہم
اپنے اہل خانہ کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے اہل و
عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ
کو نا پسند ہیں۔ (در منثور، 8/225)
4۔ بری صحبت سے بچانا: والدین
حکمت عملی کے ساتھ اپنے بچوں کی دوستیوں کا بھی مشاہدہ کرتے رہیں کہ ان کے بچے
کیسی صحبت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انکی صحبت ان کے لیے ہلاکت کا ساماں بھی ہوسکتی ہے
اور ذریعہ نجا ت بھی بن سکتی ہے۔لہذا انہیں با ادب، با اخلاق، باکردار اورصحیح
العقیدہ ہم نشیں مہیا کیجیے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: آدمی اپنے گہرے دوست کے دین پر ہوتا
ہے تو تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس کو گہرا دوست بنائے ہوئے ہے۔ (ابو داود، 4/341،
حدیث: 4833)
5۔ جوان ہونے پر شادی کرنا: اس
دورِ پرفتن میں والدین کے لیے اس ذمہ داری کو وقت پر انجام دینا بہت ضروری ہے کہ
جیسے ہی ان کی اولاد جوان ہو تو انہیں کسی نیک صالح خاندان میں بیاہ دیں اور بلا
وجہ تاخیر نہ کریں۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: جس
کے ہاں لڑکے کی ولادت ہو اسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اسے آداب سکھائے جب وہ
بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے اگر بالغ ہونے کے بعد نکاح نہ کیا اور لڑکا مبتلائے
گناہ ہوا تو اس کا گناہ والد کے سر ہوگا۔ (شعیب الایمان، 6/601، حدیث: 8666)