اولاد کے حقوق گویا والدین کے فرائض ہیں جس طرح
اولاد کے والدین پر حقوق ہوتے ہے اسی طرح اسلام نے والدین پر بھی اولاد کے کچھ
حقوق متعین فرمائے ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی فطرت میں اولاد کی محبت
پیدا کی ہے لیکن ان کے حقوق کا متعین اسلام نے کر کے انہیں واضح کر دیا اس لیے
ضروری ہے کہ والدین پر اولاد کے حقوق کو اسلام کی طرف سے متعینہ طور پر بیان کر
دیا جائے اسلام سے پہلے اولاد کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا تھا خصوصاً لڑکیوں کے
ساتھ ان کے والدین بہت برا برتاؤ کیا کرتے تھے لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے
اور ان سے پیچھا چھڑا لیا کرتے تھے لیکن قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے والدین کو اس ناروا
ظالمانہ رویے سے روکا اور انہیں اولاد کی پرورش اور تربیت پر آمادہ کیا۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ
قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ
اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا
مُهْتَدِیْنَ۠(۱۴۰) (پ 8، الانعام: 140) ترجمہ کنزالایمان) (واقعی ایسے
لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم کے بیوقوفی سے قتل کردیا اور ان
چیزوں کو جو اللہ نے ان کو روزی کے طور پر بخشی تھیں اللہ پر بہتان باندھتے ہوئے
حرام کر ڈالا بےشک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو گے۔
والدین پر اولاد کا حق ہے کہ ان کی پرورش کی جائے
ان کی محبت اور تندرستی کی حفاظت والدین پر فرض ہے۔ وَ
الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ
اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ
كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ
پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ
پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔اگر والدین
موجود نہ ہوں تو باپ پر یہ فرض عائد کیا گیا کہ اولاد کو دودھ پلانے کا انتظام کرے
لڑکے لڑکیوں پر ترجیح نہ دے بلکہ آپ نے لڑکیوں کی پرورش میں فرمایا جو شخص دو
لڑکیوں کی پرورش ان کا بالغ ہونے تک رہا قیامت کے دن میں اور وہ شخص اس طرح قریب
ہو گئے جس طرح دو انگلیاں۔ (مسلم، ص 1085، 6695)
حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے حضور ﷺ نے فرمایا: کیا
میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ اپنی اس لڑکی پر
صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ) یا بیوہ (ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے
سوا کوئی اس کا کفیل نہیں۔(ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے
بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)