اولاد کے اپنے والدین پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے
5 حقوق بیان کیے جاتے ہیں:
1۔ اولاد کا نام: والدین
پر اولاد کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ ان کا اچھا نام رکھیں، کیونکہ انسان پر نام کا
اثر ظاہر ہوتا ہے، نام انسان کے مزاج میں تبدیلی لاتا ہے، اس کی عادات و اطوار پر
گہرا اثر مرتب ہوتا ہے، اچھے اور عمدہ معنی والے نام انسان کو مثبت سوچ کا حامل
بناتے ہیں جبکہ برے نام انسان کو منفی سوچ میں ڈوبا رکھتے ہیں۔ نام اگر خوبصورت
چیز سے وابستہ ہو تو سرور حاصل ہوتا ہے۔ نام اگر قابل احترام ہستی سے وابستہ ہو تو
سن کر دل و نگاہ عقیدت سے جھک جاتے ہیں۔ جیسے پیارے آقا ﷺ کا نام مبارک نام محمد
(ﷺ) کہ آپ ﷺ کا نام رکھنے سے باپ اور بیٹے دونوں کو پیارے آقا ﷺ نے خود جنت کی
بشارت ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہ
اس ضمن میں چار فرامین صادق و امین ﷺ پیش خدمت ہیں:
1۔ جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت
اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھے وہ (یعنی نام رکھنے
والا والد)اور اس کا لڑکا دونوں بہشت(یعنی جنّت) میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء:
16، 8/175، حدیث: 45215)
2۔ روز قیامت دو شخص ربّ العزّت کے حضور
کھڑے کئے جائیں گے۔ حکم ہو گا: انہیں جنّت میں لے جاؤ۔ عرض کریں گے: الٰہی! ہم کس
عمل پر جنّت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو جنّت کا کوئی کام کیا نہیں! فرمائے گا: جنّت
میں جاؤ، میں نے حلف کیا (یعنی قسم فرمائی)ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ
میں نہ جائے گا۔ (فردوس بمأثور الخطّاب، 5/485، حدیث: 8837)
3۔ تم میں کسی کا کیا نقصان ہے اگر اس کے
گھر میں ایک محمد یا دو محمد یا تین محمد ہوں۔ (طبقات کبریٰ، 5/ 40)
4۔ جب لڑکے کا نام محمد رکھو تو اس کی
عزّت کرو اور مجلس میں اس کیلئے جگہ کشادہ کرو اور اسے برائی کی طرف نسبت نہ کرو۔ (جامع
صغیر، ص49، حدیث: 706)
2۔ اولاد کی پرورش: اولاد
کا یہ حق ہے کہ انکے والدین انکی بہترین پرورش کریں۔ انکو اچھے برے کی تمیز
سکھائیں۔ انکو گناہوں سے دور اور نیکیوں کے قریب کریں کہ یہ بچوں کا حق ہے اگر خدا
نخواستہ آخرت میں گناہوں کی وجہ سے انکی پکڑ ہو گئی تو وہ اپنے والدین کا ہی
گریبان پکڑیں گے تب کچھ نہ کر سکیں گے بہتر ہے ابھی ہی انکی اچھی تربیت کی جائے کہ
حدیث مبارکہ میں ہے: اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں ہے۔ (ترمذی،
3/383، حدیث: 1959)
3۔ اولاد کی تعلیم: اولاد
کا یہ حق ہے کہ ان کے والدین ان کو دینی و دنیاوی بہترین تعلیم سے نوازیں۔ انکو
دنیاوی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات جیسے فرض علوم نماز، روزہ، زکوٰۃ،
پاکی کے مسائل، کفریات کا علم، عقائد کا علم، اور دیگر ان جیسے ضروری مسائل سے
انکو روشناس کریں۔ انکو عالم دین بنائیں کہ آخرت میں اپنے والدین کے لیے ذریعہ
نجات بنیں۔ نہ صرف علم سکھائیں انکے عمل پر بھی متوجہ ہوں کہ بچے کو عبادت کا عادی
بنائیں اور جہنم سے نجات دیں کہ قرآن و
حدیث میں اس کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ
اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ
28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور
فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں
حکم دیا جاتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز
کا حکم دو۔ جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے
بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)
یہاں روزے کو بھی نماز پر قیاس کیا جائے گا۔ جب بچہ
روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے تو اسے روزہ رکھنے کے لیے بھی کہا جائے۔ عادت ڈالنے کے
لیے اس سے روزے رکھوائے جائیں۔ باپ کے پاس گنجائش ہو تو بچے کو حج بھی کروایا
جائے۔ اسی طرح ہی دیگر احکام کا معاملہ ہے، اس میں حکمت یہی ہے کہ بچہ شروع ہی سے
یہ احکام سیکھ لے اور نوعمری سے ہی ان کو ادا کرنے کا عادی بن جائے۔
4۔ اولاد کی تربیت: اولاد
کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ انکو ادب و احترام سکھایا جائے۔ بچوں کو معلوم ہو
کہ بڑوں سے کیسے بات کرتے اور چھوٹوں پر کیسے شفقت کرتے۔ انکو بچپن ہی سے اچھے
اخلاق کی تربیت دیں کہ بڑے ہونے تک ان میں ادب و احترام بس جائے۔ حدیث مبارکہ میں
اپنی اولاد کو ادب سکھانے کو صدقہ فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی
اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس
کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)
5۔ اولاد کا اکرام: اولاد
کے حقوق میں سے ہے کہ والدین سب سے برابر کی محبت کریں یوں نہیں ہو کہ کچھ بچے
زیادہ عزیز ہیں۔ سب کے ساتھ یکساں رویہ رکھا جائے۔ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ
بیٹیوں کے ساتھ کچھ اچھا رویّہ نہیں رکھا جاتا جبکہ یہ بہت بری بات ہے کیونکہ
احادیث مبارکہ میں بیٹیوں کی پرورش پر بہت سی فضیلتیں وارد ہیں جن میں سے چند یہ
ہیں:
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی پرورش میں دو لڑکیاں
بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل اس پاس ہوں گے،
یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر فرمایا کہ اس طرح۔ (مسلم، ص 1085،
6695)
جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر
ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کر دے
(یعنی وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح ہو جائے) تو پرورش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ
جنت کو واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اور دو بیٹیوں اور دو
بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے؟ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو کا ثواب بھی یہی ہے۔
(راوی کہتے ہیں) اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں دریافت کرتے تو ایک کی
نسبت بھی حضور ﷺ یہی فرماتے۔ (مشكوة المصابیح، 2/214، حدیث: 4975)
نہ صرف حدیث مبارکہ میں شادی سے پہلے بیٹیوں کی پرورش
کی فضیلتیں ہیں بلکہ شادی کے بعد بھی اگر بیٹی بیوہ یا مطلقہ ہو جاتی ہے تب بھی اس
کی دیکھ بھال کا ثواب وارد ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم کو یہ
نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری
طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا اس کا کوئی کفیل
نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)