دینِ اسلام جہاں والدین کے حقوق ادا کرنے پر زور
دیتا ہے وہیں اولاد کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین کرتا ہے۔اولاد اللہ کی ایک
عظیم نعمت ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ انکے حقوق ادا کریں۔ کیونکہ انکے حقوق میں
کوتاہی کرنا خیانت ہے۔
اولاد کے حقوق:
زندگی کا حق: والدین
پر لازم ہے کہ اولاد کو زندگی کا حق دیں انہیں قتل نہ کریں۔ اسلام سے قبل اہل عرب
اپنی اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل کر دیتے تھے،لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا
لیکن ہمارے پیارے دین اسلام نے اولاد کے حقوق مقرر کر دیئے تاکہ لوگ محض جہالت اور
غربت کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ کیونکہ اولاد اللہ پاک کی نعمت ہے اور
اللہ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: وَ
لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ
اِیَّاهُمْۚ-(پ
8، الانعام: 151) ترجمہ: اور اپنی اولاد کو تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی
تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔
اذان دینا: پیدائش کے بعد
اولاد کا ایک حق یہ ہے کہ اسکے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی
جائے۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے:جب بچّہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں اذان، بائیں میں
تکبیر (اقامت)کہے کہ خلل شیطان و امّ الصّبیان سے بچے۔ (فتاویٰ رضویہ،24/452) بہار
شریعت میں ہے: جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اذان و اقامت کہی
جائے اذان کہنے سے ان شاء اللہ بلائیں دور ہوجائیں گی۔ (بہار شریعت،3/355)
اچھا نام رکھنا: اولاد
کا اچھا نام رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی
اولاد کا اچھا نام رکھیں۔حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: بچے کا اچھا نام رکھا جائے، ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں
جن کے کچھ معنیٰ نہیں یا ان کے برے معنیٰ ہیں ایسے ناموں سے احتراز(یعنی
پرہیز)کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃو السّلام کے اسمائے طیّبہ(یعنی پاک
ناموں)اور صحابہ و تابعین و بزرگان دین(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے نام پر نام
رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ ان کی برکت بچے کے شامل حال ہو۔
دودھ اور غذا کا انتظام کرنا: اولاد
کا حق ہے کہ والدین انکے لیے دودھ اور غذا کا انتظام کریں۔اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: وَ الْوَالِدٰتُ
یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ
الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ
2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے
بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ
پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے
ذمے ہوگا۔
تعلیم و تربیت: والدین
کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوائیں اور انکی اچھی تربیت
کریں۔سورہ لقمان میں ہمیں اولاد کی تربیت کا بہترین درس دیا گیا ہے۔ لقمان رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: یٰبُنَیَّ اَقِمِ
الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلٰى
مَاۤ اَصَابَكَؕ-اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِۚ(۱۷) (پ21،
لقمٰن: 17) ترجمہ: اے میرے بیٹے نماز قائم کرو اور نیکی کرنے کا حکم دو اور برائی
سے روکو اور تمہیں جو کچھ تکلیف ہو اس پر صبر کرو کیونکہ ایسا کرنا قوت ارادی کی
مضبوطی ہے۔
عدل و انصاف کرنا: والدین
کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیں۔ والد کی ذمّہ داری ہے
کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اور کاروبار وغیرہ کے معاملے میں کسی طرح کی
جانبداری سے کام نہ لے بلکہ سب کے ساتھ برابر کرے نیز جائیداد اور زمین وغیرہ اپنی
زندگی میں تقسیم کرنا چاہے تو عدل و انصاف سے کام لیتے ہوئے سب کو حصّہ دے۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے
میرے والد نے کچھ عطیہ دیا تو (میری والدہ) حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا
بولیں: میں تو راضی نہیں حتّٰی کہ رسول اﷲ ﷺ کو گواہ کر لو تو وہ رسول کریم ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ سے ہے،
ایک عطیہ دیا ہے، یا رسول ﷲﷺ! وہ کہتی ہیں کہ میں آپ ﷺ کو گواہ بنالوں۔ فرمایا:
کیا تم نے اپنے سارے بچّوں کو اسی طرح دیا ہے؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: اللہ سے ڈرو
اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ (بخاری، 2/172، حدیث:2587)
شفقت و ہمدردی کا معاملہ: والدین
کو چاہیے کہ اولاد کے ساتھ شفقت و ہمدردی والا معاملہ فرمائیں۔چھوٹوں سے پیار و
محبت اور شفقت و الفت کا جو برتاؤ آپ ﷺ نے کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ برّاق جیسی
اعلیٰ ترین سواری پر سوار ہونے والے آقا ﷺ نے خود اپنے نواسے امام حسن رضی اللہ
عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھایا۔ (ترمذی،5/432، حدیث:3809ماخوذاً)
اسی لئے امام حسن رضی اللہ عنہ کو راکب دوش مصطفےٰ
بھی کہا جاتا ہے۔
اولاد کو وقت دینا: ہر
وقت کی مصروفیت بعض اوقات باپ اور بچّوں میں دوری پیدا کر دیتی ہے۔ جن بچّوں کے
باپ انہیں مناسب توجّہ اور وقت نہیں دیتے وہ دیگر گھر والوں سے بھی الگ تھلگ رہنے
لگتے ہیں۔ لہٰذا باپ کو چاہئے کہ حتی الامکان بچّوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دے۔