انسان چونکہ اشرف المخلوقات اور کائنات میں اللہ پاک کا نائب ہے۔ اس لیے اسے بہت سے فرائض سونپے گئے ہیں۔ ان میں اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے سے پہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ایسے ہی ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ شیرخوارگی سے لڑکپن اور جوانی کے مراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہے اس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔

والدین پر اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

1۔ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیار ومحبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔

2۔ جب بچہ یا بچی سات برس کے ہو جائیں تو ان کو طہارت اور وضو و غسل کا طریقہ سکھائیں اور نماز کی تعلیم دے کر ان کو نمازی بنائیں اور پاکی و ناپاکی اور حلال و حرام اور فرض و سنت وغیرہ کے مسائل ان کو بتائیں۔

3۔ بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔

4۔ اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔

5۔ تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ کریں اور تربیت کا دھیان رکھیں۔ کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں اور بچوں بچیوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ لہذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے اگر ماں اپنے اس حق کو نہ ادا کرے گی تو گناہ گار ہوگی!

اولاد کی تربیت کرنے کے معاملے میں والدین کو درج ذیل امور کا بطور خاص لحاظ کرنا چاہیے:

(1) ان کے عقائد کی اصلاح پر توجہ دینی چاہئے۔

(2) ان کے ظاہری اعمال درست کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔

(3) ان کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے۔

(4) ان کی اخلاقیات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

یہ چاروں چیز میں دنیا اور آخرت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں، جیسے عقائد کی درستی دنیا میں بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات کا سبب ہے اور عقائد کا بگاڑ آفتوں مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کا ذریعہ ہے اور عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہونے جنت میں داخلہ نصیب ہونے کا مضبوط ذریعہ ہے اور جس کے عقائد درست نہ ہوئے اور گمراہی کی حالت میں مر گیا تو وہ جہنم میں جانے کا مستحق ہو گیا اور جو کفر کی حالت میں مر گیا وہ تو ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا۔ اسی طرح ظاہری اور باطنی اعمال صحیح ہوں گے تو دنیا میں نیک نامی اور عزت و شہرت کا ذریعہ ہیں اور آخرت میں جنت میں جانے کا وسیلہ ہیں اور اگر درست نہ ہوں گے تو دنیا میں ذلت و رسوائی کا سامان ہیں اور آخرت میں جہنم میں جانے کا ذریعہ ہیں، یونہی اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور لوگ اسکی عزت کریں گے جبکہ برے اخلاق ہونے کی صورت میں معاشرے میں اس کا جو وقار گرے گا اور بے عزتی ہوگی وہ تو اپنی جگہ الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی کا سبب ہوگا اور اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہیں جبکہ برے اخلاق اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور لوگوں کی طرف سے اپنے حقوق کے مطالبات کا سامان ہیں۔

افسوس ! ہمارے معاشرے میں والدین اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں یہ تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بچہ دنیا کی تعلیم اور دنیا داری میں کتنا اچھا اور چالاک، ہوشیار ہے لیکن اس طرف توجہ بہت ہی کم کرتے ہیں کہ اس کے عقائد و نظریات کیا ہیں اور اس کے ظاہری اور باطنی اعمال کس رخ کی طرف جارہے ہیں۔ والدین کی یہ انتہائی دلی خواہش تو ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دنیا کے منصب، عزت، دولت اور شہرت حاصل کر کے دنیا کی زندگی میں کامیاب انسان بنے لیکن یہ تمنا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کی اولاد دینی اعتبار سے بھی کامیابی کی راہ پر چلے مسلمان ماں باپ کی اولاد ہونے کے ناطے اپنے دین و مذہب اور اس کی تعلیمات سے اچھی طرح آشنا ہو، اس کے عقائد اور اعمال درست ہوں اور اس کا طرز زندگی اللہ تعالیٰ اور اس حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ والدین کی یہ آرزو تو ہوتی ہے کہ ان کی اولا د دنیا میں خوب ترقی کرے تا کہ اولاد کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا بھی سنور جائے اور انہیں بھی عیش و آرام نصیب ہو لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ ان کی اولا د قبر کی زندگی میں ان کے چین کا باعث بنے اور آخرت میں ان کے لئے شفاعت و مغفرت کا ذریعہ بنے۔ جو لوگ صرف اپنی دنیا سنوارنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا کی زیب و زینت اور اس کی آسائشوں کا حصول ہے، ان کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت اور نصیحت موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (پ 12، ہود: 15، 16) ترجمہ كنز العرفان: جو دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتا ہو تو ہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے اور انہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہو گیا۔