دین اسلام وہ واحد دین ہے جس میں ہر بنی نوع انسان کے حقوق کو واضح فرمایا گیا ہے انہی میں سے اولاد کے حقوق بھی ہیں۔ اولاد والدین کا قیمتی اثاثہ ہیں لہذا شریعت مطہرہ کی طرف سے والدین پر کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جنہیں مستحسن طریقے سے پورا کرنا ضروری ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

آئیے اولاد کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:

1) دینی تعلیم و تربیت: اولاد کا سب سے اہم و مقدم حق ان کی دینی تعلیم و تربیت ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم اور ارکان کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تربیت اولاد کے متعلق ارشاد نبوی ﷺ ہے: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اورقرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)

مزید فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کر دو ان کے درمیان خواب گاہوں میں۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

2) ادب سیکھانا: اولاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا ذہن دیا جائے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: اولادکا والد پر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

ایک جگہ مزید فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا، جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

مشہور مفسر قرآن ،حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار،متقی،پرہیزگار بنانا ہے۔ اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے۔ ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں، انہیں دیندار بنا کر جائیں، جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔ (مراۃ المناجیح،6/565ملتقطاً)

3) نرمی سے پیش آنا: اولاد کا حق یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ نرمی اختیار کی جائے۔ بلا وجہ سختی سے یہ باغی بھی ہو سکتے ہیں جو کہ ان کے لیے دنیا و آخرت میں تباہی کا سبب ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671)

4) دعا کرنا: دعائے خیر کرنا بھی اولاد کا ایک حق ہے اور کبھی ناگواری کا معاملہ ہو جانے پر بھی بددعا کی طرف رجوع نہ کیا جائے کہ منقول ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے بیٹے کی شکایت کی تو آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی ہے؟ اس نے کہا: ہاں! فرمایا: اس کو تم نے ہی خراب کیا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 594)

5) خرچ کرنا: حق اولاد میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی ضروریات کے مطابق ان پر خرچ کیا جائے۔ جیسا کہ فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے: اے ابن آدم! تیرا ضرورت سے زائد مال کو (راہ خدا میں) خرچ کرنا تیرے لیے بہتر ہے اور تیرا اس مال کو روکے رکھنا تیرے لیے برا ہے اور بقدر ضرورت روکنے پر تجھے ملامت نہیں کیا جائے گا اور (خرچ کرنے میں) اپنے اہل و عیال سے ابتدا کر اور اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔

اللہ پاک ہمیں سب کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

تفصیلی معلومات کے لیے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا جامع رسالہ مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد کا مطالعہ کیجئے۔