عورت جب صاحب اولاد اور بچوں کی ماں بن جائے تو اس پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ شوہر اور والدین وغیرہ کے حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق بھی عورت کے سر پر ہو جاتے ہیں۔ جن کو ادا کرنا ہر ماں کا فرض منصبی ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کا حق ادا نہ کرے گی۔ یقیناً وہ شریعت کے نزدیک بہت بڑی گناہگار، اور سماج کی نظروں میں ذلیل و خوار ٹھہرے گی۔

(1)بچے کا نام رکھنا: والدین کی طرف سے اولاد کےلیے سب سے پہلا تحفہ اسکا اچھا نام رکھنا ہے۔ نام رکھے یہاں تک کہ کچے بچے کا بھی جو کم دنوں کا گر جائے ورنہ اللہ تعالیٰ کے یہاں شاکی ہوگا (شکایت کریگا) برا نام نہ رکھے کہ بد فال، بد ہے (کہ برا شگون برا ہے) عبداللہ،عبدالرحمٰن،احمد،حامد وغیرہا عبادت و حمد کے نام (یعنی جن ناموں میں بندہ کی نسبت اسم جلالت یعنی اللہ یا اس کے صفاتی ناموں کی طرف ہو یا جس نام میں حمد کا معنی ہو۔ یا انبیاء، اولیاء یا بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسکا نام محمد رکھے، تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)

جب محمد نام رکھے تو اس کی تعظیم و تکریم کرے۔ مارنے برا کہنے میں احتیاط رکھے۔ پیار میں چھوٹے لقب بےقدر نام نہ رکھے کہ پڑا ہوا نام مشکل سے چھوٹتا ہے۔

احتیاط: نام محمد یا احمد رکھیں اور پکارنے کےلیے کوئی اور اچھا نام رکھ لیں۔

(2) بچوں سے پیارو محبت: ہر ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیارومحبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔ بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی رہے۔ بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔ (3) بچوں کی تربیت: بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو چاہیئے کہ انہیں بار بار اللہ و رسول ﷺ کا نام سنائے ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔ جب بچے بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔ بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔

(4) بچوں کی صحبت پر توجہ دینا: خراب لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت، ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے دیکھنے سے، ناچ گانے، سینما تھیٹر، وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر بچائیں۔ اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔

(5)بچوں کو چیزیں دینے میں حق تلفی نہ کرنا: نیا میوہ، نیا پھل، پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔ چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور برابر دیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں، ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔