پیاری اسلامی بہنو! یقیناً والدین کے حقوق نہایت
اعظم و اہم ہیں کہ اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی میں انسان تمام زندگی مصروف عمل
رہے تب بھی ان کے حقوق کی ادائیگی سے کما حقہ سبکدوش نہیں ہو سکتا کیونکہ والدین
کے حقوق ایسے نہیں کہ چند بار یا کئی بار ادا کر دینے سے انساں بری الزمہ ہو جائے۔
لیکن جہاں شریعت مطہرہ نے والدین کی عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے
ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا وہیں والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق گنوائے
ہیں۔
(1)اولاد کا نام رکھنے كا حق اولاد کا برا نام نہ
رکھیں کہ بد فال،بد ہے(کہ برا شگون برا ہے) عبداللہ، عبدالرحمن، احمد،حامد وغیرہ یا
انبیاء، اولیاءیا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے نام پر نام رکھے کہ
موجب برکت ہے۔ خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچے کے دنیا
اور آخرت میں کام آتی ہے۔
نام محمد اور احمد کی برکات: حضرت
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس کے لڑکا
پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسکا نام
محمد رکھے،تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ ارشاد
فرماتے ہیں: روز قیامت دو شخص اللہ رب العزت کے حضور کھڑے کئے جائیں گے حکم ہو گا
انہیں جنت میں لے جاؤ ،عرض کریں گے الہٰی! ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے ہم
نے تو کوئی کام جنت کا نہیں کیا؟اللہ پاک فرمائے گا: جنت میں جاؤ میں نے قسم ارشاد
فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہو دوزخ میں نہ جائے گا۔ (مسند الفردوس، 2/503، حدیث:8515)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ
سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس دسترخوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہو،تو اس جگہ
پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائے گی۔ (مسند الفردوس، 2/323،
حدیث: 6525)
جب محمد نام رکھیں تو اس کی تعظیم و تکریم کریں۔
(2)بچے کا نفقہ: بچے
کا نفقہ (بچے کے کھانے، پینے، کپڑے وغیرہ کے اخراجات اور)اس کی حاجت کے سب سامان
مہیا کرنا خود واجب ہے جن میں حفاظت بھی داخل ہے۔ بچے کو پاک کمائی سے پاک روزی دے
کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں لاتا ہے۔ نیا میوہ نیا پھل پہلے انہی کو دے کہ وہ
بھی تازے پھل ہیں نئے کو نیا مناسب ہے۔ کبھی کبھی حسب استطاعت انہیں شیرینی وغیرہ
کھانے، پہننے کی اچھی چیز جو کہ شرعاً جائز ہے دیتا رہے۔
نفقہ کہ باپ پر واجب ہو اور وہ نہ دے تو حاکم جبراً
مقرر کرے گا، نہ مانے تو قید کیا جائے گا حالانکہ فروع (اولاد) کے اور کسی دین میں
اصول(یعنی والدین)محبوس نہیں ہوتے۔ فتاویٰ شامی میں ذ خیرہ کے حوالے سے نقل کیا
ہے: والد اپنے بیٹے کے قرض کے سلسلے میں قید نہیں کیا جا سکتا خواہ سلسلہ نسب اوپر
تک بلحاظ باپ اور نیچے تک بلحاظ بیٹا چلا جائے البتہ نان و نفقہ نہ دینے کی صورت
میں باپ کو قیدکیا جائے گا; کیونکہ اس میں چھوٹے کی حق تلفی ہے۔
(3)برابری کا حق: اپنے
چند بچے ہوں تو جو چیز دیں سب کو برابر و یکساں دیں، ایک کو دوسرے پر بے فضیلت
دینی ترجیح نہ دے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے: حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ اسے دوسری
اولاد پر ترجیح دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو، لیکن اگر سب برابر ہیں تو پھر
ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (الخانیۃ، 2/290)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:اگر بیٹا حصول علم میں
مشغول ہو نہ کہ دنیوی کمائی میں تو ایسے بیٹے کو دوسری اولاد پر ترجیح دینے میں
کوئی مضائقہ نہیں۔ (فتاویٰ ہندیہ، 4/391)
(4) علم دین خصوصاً وضو، غسل، نمازو روزہ کے
مسائل،توكل، قناعت، زہد اخلاص، تواضع، امانت، صدق عدل، حیا، سلامت صد رولسان وغیرہ
اور خوبیوں کے فضائل(پرهائے نیز) حرص و طمع، حب دنیا(دنیا کی محبت)،حب جاه، ریا، عجب،
تکبر، خیانت، کذب، خیانت، فحش، غیبت، حسد،کینہ وغیرہ ہا برائیوں کے رذائل
پڑھاے۔حضور پر نور ﷺ کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے اصل ایمان و عین ایمان ہے۔
اور حضور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علماء کی محبت و عظمت کی تعلیم کرے کہ یہ
باتیں ایمان کی سلامتی اور بقا کا ذریعہ ہیں۔عقائد اسلام و سنت سکھائے کہ لوح سادہ
فطرت اسلامی و قبول حق پر مخلوق ہے (اس لئے کہ بچہ فطرتا دین اسلام اور حق بات
قبول کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے) اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ قرآن مجید پڑھائے اور بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔
(5)وراثت کا حق: اولاد
کو میراث سے محروم نہ کیا جائے جیسے بعض لوگ اپنے کسی وارث کو (میراث)نہ پہنچنے کی
غرض سے کل جائیداد دوسرے وارث یا کسی غیر کے نام لکھ دیتے ہیں۔اپنے انتقال کے بعد
بھی ان کی فکر رکھیں یعنی(زندگی)میں کم سے کم دو تہائی ترکہ چھوڑ جائے،ثلث(ایک
تہائی مال) سے زیادہ خیرات نہ کرے۔