انسان تمام مخلوق میں افضل اور زمین پر الله رب العزت کا نائب ہے اس لئے اسے بہت سےفرائض سونپے گئے ہیں جن میں اولاد کی تربیت کرنا ایک اہم فرض ہےکل قیامت کے دن والدین سے ان کی پرورش کے متعلق سوال ہوگا والدین کی یہ ڈیوٹی الله کریم پاک کی طرف سے لگائی گئی ہے ماں پر لازم ہے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے بچے کی تربیت کرے کہ ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہے اور والد کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے حلال رزق کمائے کھلائے تاکہ اولاد نیک ہو۔ قرآن  مجید میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں والدین کے ذمے اہم کام کی ایک ذمہ داری اور اولاد کی بہترین تربیت کا حکم ارشاد کیا گیا ہے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت علی فرماتے ہیں: اپنی اولاد کو تعلیم دو اور انہیں ادب کرنا سکھاؤ۔

اولاد کی تربیت کے حوالے سے آقا ﷺ کے فرامین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

1 ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

2۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)یعنی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لئے سب سے بہترین عطیہ ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب وہ یعنی بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو اور ان کے بستروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کا نام رکھا جائے اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ سال کا ہو تو اسے ادب سکھایا جائے۔ جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر دے جب تیرہ سال کا ہو جائے تو اسے نماز کے لئےتو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی شادی کردے۔پھر آقا ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے ادب سکھایا۔تعلیم دیااور تیری شادی کردی میں دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ الکبری للسبکی، 6/318)

5۔حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہو گئے آپ نے سجدہ طویل کر دیا۔ صحابہ کرام سمجھےکہ شاید کوئی بات ہو گئی ہو۔جب آپ نے نماز مکمل کر لی تو صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ ہم سمجھے کو کوئی بات واقع ہو گئی ہے آپ نے فرمایا: میرا بیٹا مجھ پر سوا ر ہو گیا تھا تو میں نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کرلے۔ (نسائی، ص 196، حدیث: 1138)

ان احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہواکہ اولاد کو سکھانا اسے بولنے کا ادب و طریقہ بتانا ان کے اچھے نام رکھنا نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا یہ سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے اللہ پاک والدین کو اولاد کے اولاد کو والدین کے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین