یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جب قرابت اور رشتہ داری کے حق کی تاکید ہے تو رشتہ داروں میں زیادہ خاص اور قریبی رشتہ ولادت کا ہے اس لیے اس کے حقوق باقی اقارب سے کئی گنا زائد ہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! میں کس کے ساتھ بھلائی کروں؟ ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ، اس نے عرض کی میرے ماں باپ وفات پا چکے ہیں۔ارشاد فرمایا ! اپنی اولاد کے ساتھ بھلائی کرو جیسے تم پر تمہارے والدین کا حق ہے اس طرح تم پر تمہاری اولاد کا بھی حق ہے۔

اولاد کے متعدد حقوق ہیں مگر یہاں اولاد کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ باپ پر اولاد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اچھی طرح ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث: 8658)

2۔ والدین پر اولاد کا حق یہ بھی ہے کہ بچے کی دیندار لوگوں میں شادی کرے کہ بچہ پر اپنے نانا ابو اور ماموں کی عادات و افعال کا بھی اثر پڑتا ہے۔

3۔ جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعلیم، ماں باپ، استاد اور دختر کو شوہر کی بھی اطاعت کے طرق و آداب(طور طریقے) بتائے۔

4۔ حضور اقدس ﷺ کی محبت و تعظیم اولاد کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان و عین ایمان ہے۔

5۔ جب جوان ہو شادی کر دے، شادی میں وہی رعایت قوم و دین و سیرت و صورت ملحوظ رکھے۔

یاد رہے کہ حقوق اللہ و حقوق العباد کا بجا لانا ہر مسلمان پر لازم ہے حقوق اللہ میں کوتاہی تو رب تعالیٰ معاف فرما دے گا مگر حقوق العباد میں کوتاہی بندے سے معاف کروانا لازم ہے ورنہ رب تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا اسی لیے حقوق العباد کو پورا کرنے کی سعی کرتے رہیں اور ان حقوق کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں حقوق العباد کامل طور پر پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ