جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اور ان کو پورا
کرنا اولاد پر فرض ہے اسی طرح کچھ حقوق والدین پر بھی اولاد کے ہیں جنکو پورا کرنا
والدین پر لازم ہے۔ ماں بچے کی پہلی درس گاہ ہے اس لیے ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچے
کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرے تا کہ بچہ جب بڑا ہو تو باادب بنے۔ والد کو چاہیے کہ
اپنے بچوں کو حلال رزق کما کر کھلائے تاکہ بچے نیک بنے کیو نکہ حرام مال سے والد
کی اپنی دنیا اور آخرت برباد ہو سکتی ہے۔
آئیے حدیث شریف کی روشنی میں اولاد کے کچھ حقوق ملاحظہ
فرمائیے۔
1۔ رسول ﷺ نے فرمایا: ساتویں دن بچے کا عقیقہ کیا
جائے، اس کا نام رکھا جائے، اور اس کے بال وغیرہ دور کئے جائیں اور جب چھ سال کا
ہوتو اسے ادب سکھایا جائے،جب وہ نو سال کا ہو تو اس کا بچھونا علیحدہ کر دے، جب
تیرہ سال کا ہو تو اسے نماز کے لئے مارے اور جب وہ سولہ سال کا ہو تو باپ اس کی
شادی کردے، پھر آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ میں نے تجھے
ادب سکھایا، تعلیم دی اور تیری شادی کر دی، میں دنیا کے فتنے اور آخرت کے عذاب سے
تیرے لئے اللہ پاک کی پناہ چاہتا ہوں۔ (طبقات الشافیہ الکبری للسبکی، 6/318)
2۔ رسول ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ کی حالت میں آپ کی گردن پر سوار ہوگئے آپ نے
سجدہ طویل کر دیا، لوگوں نے سمجھا شاید کوئی بات ہوگئی ہے، جب آپ نے نماز پوری کر
لی تو صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ نے بہت طویل سجدہ کیا، یہاں تک کہ ہم
سمجھے کوئی بات واقعی ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تو میں
نے جلدی کرنا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ اپنی خوشی (حاجت) پوری کر لے۔ (نسائی، ص 196،
حدیث: 1138)
اس حدیث مبارک میں کئی فوائد ہیں، ایک یہ کہ جب تک
آدمی سجدے میں رہتا ہے اسے اللہ پاک کا قرب حاصل رہتا ہے اس حدیث مبارک سے اولاد
سے نرمی اور بھلائی اور امت کی تعلیم، سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے
کہ اولاد کی خوشبو جنت کی خوشبو ہے۔ (معجم اوسط، 4/243، حدیث: 586)
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید نے
کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت احنف بن قیس کو بلانے کے لیے بھیجا، جب وہ آ گئے تو
میرے باپ نے کہا: اے ابو بحر!اولاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: امیر المومنین!
یہ ہمارے دلوں کے پھل اور پشت کے ستون ہیں، ہم ان کے لیے نرم زمین اور سایہ دار
آسمان ہیں، ہم انہی کے سبب ہر بلند چیز تک پہنچتے ہیں، اگریہ کچھ مانگیں تو انہیں
دیجئے اگر یہ ناراض ہوں تو انہیں راضی کیجیے۔
ان پر اتنے ثقیل نہ ہوں کہ یہ آپ کی زندگی کو
ناپسند کرنے لگیں اور آپ کی موت کی آرزو آنے لگیں، آپ کے قرب کو برا سمجھنے لگیں،
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا:بخدا! اے احنف! جب تم آئے ہوتو میں
یزید پر غم و غصہ سے بھرا بیٹھا تھا چنانچہ جب احنف چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی
اللہ عنہ یزید سے راضی ہو گئے اور یزید کو دوہزار درہم اور دوسو کپڑے بھیجے۔ یزید
نے ان میں سے ایک ہزار درہم اور ایک سو کپڑے حضرت احنف کے ہاں بھیج دے۔ (مکاشفۃ
القلوب، ص584)
4۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ پر اولاد کا یہ حق ہے
کہ وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے عمدہ نام رکھے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث:
8658)
5۔ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن مبارک کے سامنے
اپنے کسی لڑکے کی شکایت کی،آپ نے فرمایا: کیا تم نے اس پر بدعا کی ہے؟اس نے
کہا:ہاں!آپ نے فرمایا:تو نے اسے برباد کر دیا ہے، اولاد کے ساتھ نیک سلوک اور نرمی
کرنی چاہیے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص582)
اولاد کوبدعا دینے سے بچنا چاہیے کیونکہ کوئی گھڑی
قبولیت کی ہو سکتی ہے اور وہ بدعا اولاد کے حق میں قبول ہو سکتی ہے۔