دین اسلام میں بچوں کی تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے بچوں کی صحیح تربیت اور نشونما کے لیے اپنے اخلاق و عادات کو درست کر کے ان کے لیے ایک نمونہ بنے۔ پھر اس کے بعد ان کے عقائد و افکار اور نظریات کو سنوارنے کے لیے بھرپور محنت کریں اور ان کی اخلاقی اور معاشرتی حالت سدھارنے کے لیے ان کے قول و کردار پر بھرپور نظر رکھیں۔ تاکہ وہ معاشرے کے باصالحیت اور صالح فرد بن سکیں کیونکہ اولاد کی تربیت صالح ہو تو ایک نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین شریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں۔ اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اور ان کو ازاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے کتاب و سنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے، ان کی امانت کو ادا کیا جائے، ان کو ازاد چھوڑنے اور ان کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔

احادیث مبارکہ:

(1) حضرت جابر سمرہ دضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اسکے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذى، 3/382، حدیث:1958)

(2) اولاد کے لیے باپ کا کوئی عطیہ اچھی تربیت سے بہتر نہیں۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

(3) جس کی پرورش میں دو لڑکیاں بلوغ تک رہیں تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ بالکل پاس پاس ہوں گے یہ کہتے ہوئے حضور ﷺ نے اپنی انگلیاں ملاتے ہوئے کہا کہ اس طرح۔ (مسلم، ص 1085، 6695)

(4) کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اور وہ اپنی اس لڑکی پر صدقہ کرنا ہے جو تمہاری طرف (مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب) واپس لوٹ آئی تمہارے سوا اس کا کوئی کفیل نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/188، حدیث: 3667)

(5) جو شخص تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرے پھر ان کو ادب سکھائے اور ان کے ساتھ مہربانی کرے یہاں تک کہ خدا ان کو مستغنی کر دے (یعنی وہ بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح ہو جائے) تو پرورش کرنے والے پر اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کر دے گا ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اور دو بیٹیوں اور دو بہنوں کی پرورش پر کیا ثواب ہے؟ حضور ﷺ فرماتے ہیں دو کا ثواب بھی یہی ہے راوی کہتے ہیں اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں دریافت کرتے تو ایک کی نسبت بھی حضور یہی فرماتے۔ (مشكوة المصابیح، 2/214، حدیث: 4975)

(6) اپنی اولاد کو سات سال کا ہونے پر نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں انہیں نماز نہ پرھنے پر مارو اور انکے بستر الگ کر دو۔(ابو داود، 1/208، حدیث: 494)