جیسا کہ اللہ پاک قرآن  پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ- وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۸۳) (پ 1، البقرۃ: 83) ترجمہ: اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کراور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ و (اچھا سلوک کرو) اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو (لیکن) پھر تم میں سے چند آدمیوں کے علاوہ سب پھر گئے اور تم (ویسے ہی اللہ کے احکام سے) منہ موڑنے والے ہو۔

اس آیت میں والدین اور دیگر لوگوں کے حقوق بیان کرنے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ احادیث میں یہاں تک کہ حقوق اللہ پورا کرنے کے باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کی مستحق ہوں گے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ہم میں مفلص وہ ہے جس کے پاس درہم اور ساز و سامان نہ ہو آپ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز روزہ اور زکوۃ وغیرہ اعمال لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہو کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کا مال کھایا تھا کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو ایک کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں اس کے پاس سے ختم ہو گئی تو اس کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم، ص 139حدیث:2581)

بچوں کی تعلیم و تربیت والدین پر یہ حق ہے کہ بچوں کی اچھی طرح تربیت کرے ان کو شریعت کا پابند بنائیں انہیں دینی ماحول میں رکھے گھر کے ماحول کا اور والدین کی تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ (بخاری، 3/298، حدیث: 4775)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو مسلمان ہوتا ہے بعد میں جس طرح کی اس کے والدین جس طرح کی تربیت کریں اس طرح کا بن جاتا ہے اسی لیے والدین کو چاہیے کہ خود بھی شریعت کے پابند رہے اور اولاد کی تربیت بھی اچھی کرے کیونکہ اخلاقی اور شرعی طور پر بھی والدین کا فرض ہے اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ: کنز العرفان: اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خود بھی اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کر جہنم سے بچ جاؤ اور اپنے اہل و عیال کی اچھی تربیت کر کے ان کو بھی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کرنی چاہیے۔

والدین بچوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دیں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں ایک دن نبی پاک ﷺ کے پیچھے (سوار) تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے لڑکے! اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب سوال کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ سے سوال کرے اور جب مدد مانگے تو اللہ پاک سے مدد مانگے اور جان لے کہ اگر امت اس بات پر جمع ہو جائیں کہ تجھے فائدہ پہنچائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ پاک نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ جمع ہو جائیں کہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے مگر جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔ قلم خشک ہو گئے اور صحیفے لپیٹ دیئے گئے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کو عقیدۂ توحید کی تعلیم دیں تاکہ اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف اور اس کی عبادت میں لگی رہیں۔

بچوں سے پیار و محبت کریں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ایک بدوی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: کیا تم بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم ان کو بوسہ نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل میں شفقت اور رحمت نکال لی ہے تو اس کا میں مالک نہیں ہوں۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5998)

یعلی عامری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حسن اور حسین نبی کریم ﷺ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ساتھ لگایا اور فرمایا اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔

معلوم ہوا کہ بچوں سے پیار و محبت کرنا ان کو بوسہ دینا سنت ہے اور جو بچوں سے پیار کرتا ہے اللہ اس پر رحم کرتا ہے رسول اللہ ﷺ بچوں سے بڑا پیار کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاس کو اٹھا کر فرض نماز پڑھتے تھے۔ جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اس کو نیچے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اس کو اٹھا لیتے۔ (بخاری، 4/100، حدیث: 5996)

اولاد کے اخراجات باپ کے ذمے ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- (پ 2، البقرة: 233) ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے۔ اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

جب اولاد کو دودھ پلانے کی وجہ سے مطلقہ عورت کا خرچ اولاد کے باپ کے ذمے ہیں تو اولاد کے اخراجات کا باپ یا ولی ذمہ دار ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ !میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے اپنے آپ پر خرچ کر۔ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی بیوی پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کر اس نے کہا میرے پاس اور دینار ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اب تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں ضرورت ہے)۔ (ابو داود، 2/184، حدیث: 1691)

اس سے معلوم ہوا کہ باپ پر اولاد کی اخراجات ضروری ہے جیسا کہ اوپر آیات اور حدیث سے معلوم ہوا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین صدقہ وہ ہے جو غنا کے بعد اور خرچ کرنے میں اہل و عیال سے آغاز کر۔ (بخاری، 1/481، حدیث: 1426)

اہل و عیال کے حقوق پورا کرنے کے بعد جو مال صدقہ کیا جائے وہ بہترین صدقہ ہے۔

جب بچیاں بالغ ہو جائیں تو والدین پردے کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹) (پ 22، الاحزاب: 59) ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے اور صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں اس سے جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ کریم نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے وقت اپنے گھروں سے نکلے تو اپنے چہرے ڈھانپ لیں اپنے سروں کے اوپر کی جانب سے اور ایک آنکھ ظاہر کرے راستہ دیکھنے کے لیے۔

بہرحال نبی کریم ﷺ نے بیویوں بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا ہے جس سے واضح رہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل باور کرواتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہوا ہے۔ اس اعراض انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی اولاد کو پردے کی تعلیم دینی چاہیے۔