یقینا والدین کے حقوق نہایت اعظم و اہم ہیں کہ اگر
والدین کے حقوق کی ادائیگی میں انسان تمام زندگی مصروف عمل رہے تب بھی ان کے حقوق
کی ادائیگی سے کما حقہ سبکدوش نہیں ہوسکتا کیونکہ والدین کے حقوق ایسے نہیں کہ چند
بار یا کئی بار ادا کردینے سے انسان بڑی الذمہ ہوجائے لیکن جہاں شریعت مطہرہ نے
والدین کی عزت و عظمت اور مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے انکے حقوق کی ادائیگی کا
حکم دیا وہیں والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق گنوائے ہیں۔اگرچہ ان حقوق میں سے
اکثر کی ادائیگی والدین پر واجب نہیں لیکن اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت
کرنا، انہیں سچا مسلمان بنانا، دنیا و آخرت میں انہیں کامیاب و کامران دیکھنا اور
خود بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو پھر ان حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت مجدد
دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے مشعلۃ الارشاد فی حقوق
الاولاد تسہیل و تخریج بنام اولاد کے حقوق سے اولاد کے چند حقوق ذکر کیے جاتے ہیں:
پہلا حق: جماع کی ابتدا
بسم اللہ شریف سے کرے ورنہ بچہ میں شیطان شریک ہوجاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی
اپنی بیوی سے قربت کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: بسم اللہ اللّٰہمّ
جنبنا الشّیطان وجنب الشّیطان ما رزقتنا یعنی اللہ کے نام سے، اے اللہ ہمیں
شیطان سے محفوظ رکھ اور جو اولاد تو ہمیں دے اسکو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔ تو اگر
اس صحبت میں انکے نصیب میں بچہ ہوا تو اسے شیطان کبھی نقصان نہ دے سکے گا۔ (بخاری،
4/214، حدیث: 6388) اس حدیث مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرماتے ہیں: یہ دعا ستر کھولنے سے پہلے پڑھے۔ پھر فرماتے ہیں: اس صحبت میں
نہ شیطان شریک ہو اور نہ بچے کو شیطان کبھی بہکائے۔جیسے شیطان کھانے پینے میں
ہمارے ساتھ شریک ہو جاتا ہے ایسے ہی صحبت میں بھی اور جیسے کھانے پینے کی برکت
شیطان کی شرکت سے جاتی رہتی ہے ایسے ہی صحبت میں شیطان کی شرکت سے اولاد نالائق
اور جناتی بیماریوں میں گرفتار رہتی ہے اور جیسے بسم اللہ پڑھ لینے سے شیطان کھانے
پینے میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا ایسے ہی بسم اللہ کی برکت سے صحبت میں شیطان
کی شرکت نہیں ہوتی جس سے بچہ نیک ہوتا ہے اور آسیب وغیرہ سے بھی بفضلہ محفوظ رہتا ہے۔
دوسرا حق: کان میں اذان دینا
جب بچہ پیدا ہو فورا سیدھے کان میں اذان بائیں میں تکبیر کہے کہ خلل شیطان و ام
الصبیان سے بچے۔ بہتر یہ ہے کہ سیدھے کان میں چار مرتبہ اذان اور بائیں کان میں
تین مرتبہ اقامت کہی جائے۔ (بہار شریعت، 3/153، حصہ: 15)
ام الصبیان ایک قسم کی مرگی ہے جو اکثر بچوں کو
بلغم کی زیادتی اور معدے کی خرابی سے لاحق ہوتی ہے جس سے بچوں کے ہاتھ پاوں ٹیڑھے
ہوجاتے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگ جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ، 1/221)
تیسرا حق: عقیقہ کرنا ساتویں
اور نہ ہوسکے تو چودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے،بیٹی کے لئیے ایک، بیٹے کے
لئیے دو کہ اس میں بچے کا گویا رہن(گروی) سے چھڑانا ہے۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ
علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: گروی ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس بچے سے پورا نفع
حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض نے کہا: بچے کی سلامتی اور نشوونما
اور اس میں اچھے اوصاف ہونا عقیقے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مزید فرماتے ہیں: لڑکے کے
عقیقے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکری ذبح کی جائے یعنی لڑکے میں نر جانور اور
لڑکی میں مادہ مناسب ہے اور لڑکے کے عقیقے میں بکریاں اور لڑکی میں بکرا کیا جب
بھی حرج نہیں۔نیز اسی میں ہے: لڑکے کے عقیقے میں دو بکریوں کی جگہ ایک ہی بکری کسی
نے ذبح کی تو یہ بھی جائز ہے۔
چوتھا حق: اچھا نام
رکھنا انبیاء، اولیاء یا اپنے بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں انکے نام پر نام
رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصا نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک نام کی
بےپایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے
لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لئیے اسکا
نام محمد رکھے، تو وہ اور اسکا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16،
8/175، حدیث: 45215)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ
سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس دستر خوان پر کوئی احمد یار محمد نام کا ہو، تو اس
جگہ پر ہر روز دو بار برکت نازل کی جائے گی۔
پانچواں حق: یکساں
حقوق اپنے چند بچے ہوں تو جو چیز دے سب کو یکساں و برابر دے، ایک کو دوسرے پر
بےفضیلت دینی(دینی فضیلت کے بغیر)ترجیح نہ دے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی ایک کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری
اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی فضل و شرف کی وجہ سے ہو، لیکن اگر سب برابر ہوں
تو پھر ترجیح دینا مکروہ ہے۔