اولاد اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے جو کہ وہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جس طرح اولاد پر والدین کے بہت سے حقوق ہیں اسی طرح بحیثیت والدین ان پر بھی اولاد کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے اور ان حقوق سے آگاہی بھی حاصل کرنی ضروری ہے، یہاں اولاد کے پانچ حقوق بیان کیے جاتے ہیں:

اولاد کا پہلا حق جب بچہ پیدا ہو تو فورا ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں تاکہ بچہ شیطان کے خلل سے محفوظ رہے اور اسے یہ معلوم ہو کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اور کسی عالم دین یا پرہیزگار انسان سے کوئی میٹھی چیز چبوا کر بچے کے منہ میں ڈال دیں تاکہ بچہ شیریں زبان اور با اخلاق ہو۔ اور ان کی پیدائش کے ساتویں دن ماں باپ ان کے سر منڈا کر بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کریں۔ اور بچے کا کوئی اچھا سا نام رکھیں ہرگز ہرگز بچوں کے برے نام نہ رکھے جائیں بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اور اولیائے کرام کے ناموں پر ان کے نام رکھے جائیں۔

خصوصا اگر لڑکا ہو تو اس کا نام محمد رکھیں اس کی بڑی برکات ہیں۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (1)

اولاد کا دوسرا حق بچوں سے پیار اور محبت سے پیش آیا جائے اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی کرے ان کی تربیت اور پرورش میں پوری پوری کوشش کرے۔ بچوں کی جائز ضروریات کو پورا کرے اور بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ سب سے زیادہ بچوں پر مہربان تھے۔ (2) اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ بچوں کے ساتھ شفقت بھرا رویہ اختیار کریں اور اگر کبھی ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو سب کے سامنے انہیں مارنے اور ڈانٹنے کے بجائے انہیں علیحدہ سے سمجھایا جائے اور ان کی اصلاح کی جائے کیونکہ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار سے بچہ باغی ہو جاتا ہے اور ماں باپ کا فرمانبردار نہیں رہتا۔

اولاد کا تیسرا حق بچوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں لے کر دی جائیں یعنی ان کے رہنے کے لیے گھر کا مناسب انتظام کریں اور پہننے کے لیے مناسب کپڑے دیں اور اچھی تعلیم دلوائیں اور بچے کو پاک کمائی سے پاک روزی دے کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتا ہے۔ اگر بچے بیمار پر جائیں تو ان کا علاج کروائے۔ چند بچے یا بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں یعنی برابر دیں ہرگز کمی بیشی نہ کریں ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔

فتاوی قاضی خان میں ہے: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: اولاد میں سے کسی کو زیادہ دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و فضیلت دینا دینی شرف و فضل کی وجہ سے ہو لیکن اگر سب برابر ہوں تو ترجیح دینا مکروہ ہے۔ (3)

بچیوں اور بچوں کو برابر کی چیزیں دیں اور انصاف کریں اور بچیوں کا خاص طور پر خیال کریں کہ ان کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔

اولاد کا چوتھا حق انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا جائے بچوں کو سب سے پہلے مدرسۃ المدینہ سے درست تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی دینی تربیت بھی کرے اور ان کو بری صحبت سے بچائے۔ ان کو طہارت، پاکی، نماز، وضو، اور غسل کا درست طریقہ بتائے۔

سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیا جائے اور 10 سال سے نماز مار کر پڑھائے (لیکن منہ اور سر پر نہ مارے) اپنی اولاد کو نیک بنائیں کیونکہ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان تربیت نشان ہے: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن پاک کیونکہ قرآن پاک پڑھنے والے لوگ انبیاء و اصفیاء کے ساتھ اللہ پاک کے سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا بچوں گا۔ (4)

اولاد کا پانچواں حق ان کی مناسب تعلیم دلوانے کے بعد ان کی اچھی جگہ شادی کروا دیں اور ان کی رضامندی سے شادی کروائی جائے یعنی نکاح کرتے وقت ان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھا جائے اور شادی کرواتے وقت دین کو فوقیت دی جائے کہ اگر بیٹی ہے تو اس کے لیے نیک لڑکا پسند کیا جائے اور کفو میں اس کی شادی کروائی جائے اور اگر بیٹا ہے تو اس کے لیے نیک عورت کا انتخاب کیا جائے نہ کہ حسن و جمال اور حسب و نسب کو فوقیت دی جائے اپنی اولاد کو ہنر بھی سکھائے جائیں جیسے لڑکیوں کو سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا وغیرہ اور لڑکوں کو بزنس کے طریقے، حلال روزی کمانے کے طریقے وغیرہ سکھائے جائیں تاکہ وہ حلال روزی کما کر کھا سکیں۔

اپنی اولاد کو وراثت سے محروم نہ کیا جائے انہیں شریعت کے مطابق وراثت سے بھی حصہ ملنا چاہیےخاص طور پر بیٹی کو بھی وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے اور انہیں اچھے آداب سکھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات:

1۔ کنز العمال، جز: 16، 8/175، حدیث: 45215

2۔ مسلم، ص 974، حدیث:6026

3۔ اولاد کے حقوق، ص 20۔ الخانیۃ، 2/290

4۔جامع صغیر، ص 25، حدیث:311)