دور جاہليت میں جو ہستیاں حق کی پکار پر لبیک کہتی ہوئ سب سے پہلے آپ ﷺ کک دعوت حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سر فراز ہوئئں اور یا یھاالذین امنوا  اے ایمان والو! کی پکار کی سب سے پہلے حقدار قرار پایئں،ان میں ایک نمایاں نام حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کا بھی ہے،جنھوں نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا،حضوراکرم ﷺ کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مشرف ہوئیں،اللہ رب العزت نے جنہیں سلام بھیجا،جنھوں نے حبیب کبریا ﷺ کی صحبت با برکت میں کم و بیش ٢٥ سال رہنے کی سعادت حاصل کی،آپ رضی اللہ عنہا،رسول اکرم ﷺ کی بہت ہی محبوب زوجہ ہیں،آپ کی حیات میں آپ ﷺ نے کسی اور سے نکاح نہ فرمایا۔

ام المؤ مینین سید تنا حضرت خدیجۃالکبری نے ہر قدم پر آپ ﷺ کا ساتھ دیا آپ کا حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائ،حضرت سیدنا علامہ محمد بن اسحاق مدنی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سید دو عالم ﷺ جب بھی کفار کی جانب سے اپنا رد اور تکذیب وغیرہ کوئ نا پسند یدہ بات سن کرغمگین ہو جاتےتو حضرت خدیجہ کے پاس جاتے تو ان کے باعث آپ ﷺ کی وہ رنج کی کیفیت دور ہو جاتی۔(السیرۃ النبو یۃ لا بن اسحاق تحدید لیلۃ القدر ١/١٧٦)

حضرتخدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کی زات کی بے شمار صفات ہیں آپ کا کردار اسقدر مضبوط تھا کہ زمانہ جاہليت میں بھی آپکو طاھرہ کہہ کر پکارا جاتا ےھا،آپ رضی اللہ عنہا کہ فضائل و مناوب بے شمار ہیں جن کا الگ باب ہے یہاں ہمیں مقصود ہیکہ آپ ﷺ حضرت خدیجۃالکبری سے کسقدر محبت فرماتے تھے چنانچہ

آپ ﷺ کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وصال ہو گیا تو پیارے آقا ﷺ کثرت سے انکا زکر فرماتے اور اپنی بلند بالا شان کے باوجود آپ کی سہلیوں کا اکرام کرتے روایت ہیکہ بار ہا جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کوئ شے پیش کی جاتی تو فرماتے :اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤکیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی ہے اسے فلاں کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔( الادب المفرد،ص٧٨،ح:٢٣٢)

ایک اور روایت ہیکہ ایک بار حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ کی بہن حضرت ہالہ بنتِ خویلد آپ ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،انکی آواز حضرت خدیجۃالکبری سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت طلب کرنا یاد گیا اور آپ ﷺ نے جھر جھری لی۔

صیح البخاری کتاب مناقب الا نصار باب تزویج النبی الخ،ص٩٦٢،ح٣٨٢١

یعنی آپ ﷺ ,حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ کو یاد فرما کر غمگین ہو گئے۔

اسی طرح ایک اور روایت ہیکہ ایک مرتبہ جب حضرت عائشہ نے حضور ﷺ کی زبان مبارک مبارک سے حضرت خدیجہ کی بہت تعریف سنج تو انہیں غیرت آگئ اور انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ان تو آپکو ان سے بہتر بیوی عطا فرمادی ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں خدا کی قسم !خدیجہ سے بہتر مجھے کوئ بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انھوں نے میری تصديق کی اور جس وقت کوئ شخص مجھے کوئ چیز دینے کیلے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا مال دے دیا اور انہں کے شکم سے اللہ نے مجھے اولاد عطا کی۔(زرقانی جلد ٣ص ٢٢٤)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ازواج مطھرات میں سب سے زیادہ مجھے حضرت ض

خدیجہ کے بارے میں غیرت آیا کرتی تھی حا لانکہ میں نے انکو دیکھا بھی نہیں تھا،غیرت کی وجہ یہ تھی کہ حضوراکرم ﷺ بہت زیادہ انکا زکر خیر فرماتے رہتے تھے اور اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ جب کوئ بکری ذبح کرتے تو کچھ گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کے گھروں میں ضرور بھیجتے تھے اس سے میں چڑجایا کرتی تھی،اور کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیا کرتی تھی کہدنیا میں بس ایک خدیجہ ہی تو آپ کی بیوی تھیں میرا یہ جملہ سن کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہاں ہاں بے شک وہ تھیں،وہ تھیں،انہیں کے شکم سے تو اللہ نے مجھے اولاد عطا فرمائ۔ (بخاری،2/565 ،حدیث: 3818)

ان روایت سے معلوم ہوتا ہیکہ آپ ﷺ کوحضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا سے بے انتہا محبت تھی جو ان کے انتقال کے بعد بھی قائم رہی جب حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا تو آپکو اپنی رفیقہ حیات کی دائمی جدائ کا بہت صدمہ پہنچا آپ غمگین رہنے لگے اسی سال چچا حضرت ابو طالب کا بھی انتقال ہو گیا ان دونوں ہستیوں نے آپ ﷺ کا ہر موقع پر ساتھ دیا تھا اسی لیے ان ک وصال کے سال کو غم کا سال کہا۔

بلاشبہ حضرت خدیجۃالکبری ایک عظیم ہستی ہیں آپ اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل ہیں،ہجرت سے تین برس قبل پینسٹھ برس کی عمر میں آپ کا ماہ رمضان میں انتقال ہوا،آپ ﷺ نے خود بنفس نفیس انکی قبر میں اتر کر اپنے ہاتھوں سے انکو سپرد خاک فرمایا،

خواتین بلخصوص شادی شدہ خواتین کے لیے حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کی ازدواجی زندگی مثالی نمونہ ہے،اللہ پاک ہمیں حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ عنہا کے صدقے عاشق رسول اور با عمل بناۓ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔