رعایا کے معنی: رعایا کا
معنی ہے حکمران یعنی حکومت کرنے والا۔
رعایا کے حقوق کے بارے میں مختصراً وضاحت: رعایا کے
حقوق سے مراد ہے کہ حکمر ان کے جو قوم پر حقوق ہیں جیسا کہ اللہ پاک نے اور بھی
بہت سی چیزوں کے حقوق مقرر کیے ہیں اسی طرح حکمران کے بھی قوم پر کچھ حقوق ہیں۔
جیسا کہ حکمران اپنی قوم کے ہر اس کام کو پورا کر ےجو ممکن ہو اور خلاف شرع نہ ہو۔ ان کی ہر طرح سے مدد کرے۔ ان سے
نرمی اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ اور اس چیز کا تکبر اپنے دل میں نہ رکھے کہ میں
حکمران ہوں بلکہ خود کو بھی دوسروں جیسا ہی سمجھے اور دوسروں کو حقیر نہ جانے اور
عدل انصاف سے لوگوں میں فیصلے کرے اور ان کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہونے
دے۔حکمر ان کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اس
بارے میں حدیث مبارکہ بھی ہے: بہترین انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو نفع
پہنچائے۔
ہر انسان اپنے نفع کی فکر میں رہتا ہے۔ اپنا فائدہ
تلاش کرتا ہے اور اسی فکر میں زندگی گزار دیتا ہے۔ چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ
کمائے زیادہ سے زیادہ اپنی ذات کو آرام پہنچائے۔ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کے
قابل وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے دوسروں کے کام آئے دوسروں کے دکھ درد میں
شریک ہواور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرے۔
حدیث مبارکہ: واثلہ ابن الاسقع نے دریافت کیا: اے
الله کےرسول ﷺ عصبیت کسے کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو ظلم کرنے میں اپنی
قوم کی مدد کرے۔ (ابو داود، 4/427، حدیث: 5119) اس حدیث میں حضور ﷺ نے عصبیت کی
تعریف بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ عصبیت یا تعصب اپنی قوم خاندان یا وطن
سے محبت کرنے کا نام نہیں بلکہ اس بات کا نام ہے کہ تو ظلم میں اپنی قوم کی مدد
کرے۔ اور قوم کی محبت تجھے اس قدر اندھا کر دے کہ تو ظلم میں بھی اس کی مدد کرنا
جائز سمجھے۔ ویسے اپنی قوم سے محبت بری
بات نہیں بلکہ یہ تو فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ تعصب جسے برے مفہوم میں لیا جاتا
ہے وہ یہی ہے کہ اپنی قوم کا برا کام بھی اچھا معلوم ہو اور دوسروں کی اچھائیاں
بھی برائیاں نظر آنے لگے۔ ایسے تعصب سے اجتناب لازم ہے۔ اس کے مقابلے میں عدل و
انصاف کا دامن پکڑنا چاہیے۔ ظلم کی مخالفت کی جائے خواہ ظالم کوئی رشتہ دار ہو
دوست ہو ہم وطن ہو یا ہم مذہب ہو۔
حکمران کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کو دین کے حصہ کچھ
ضروری عقائد سکھائے اور خود بھی اس پر عمل پیرا رہے اور تقویٰ اور پرہیزگاری کو
اختیار کر ے اور اپنی قوم کو بھی اس کا حکم دے۔
اس بارے میں ایک ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- (پ
26، الحجرات: 13) ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے
جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔
حضور پاک ﷺ نے تقویٰ کا اصل مقام دل کو قرار دیا ہے۔
جب انسان میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ اخلاص نیت کی صورت میں
نکلتا ہے۔
اصل بادشاہت تو اللہ کی ہی ہے مگر اللہ نے اپنی
مخلوق میں سے بھی کسی کسی کو حکمرانی عطا فرمائی اور ان پر کچھ حقوق بھی ہے اور ان
حقوق کو پورا کرنا ان پر لازم ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمر انی عطا فرمائی ہے ان
کو چاہیئے کہ شیطانی وسوسوں سے بچے اور تکبر کرنے اور اتر انے، غریبوں کا حق
کھانے، ان پر اپنے قانون لاگو کرنے سے پر ہیز کرے عاجزی کو اختیار کرے۔ سب سے بہتر
حکمرانی تو اللہ پاک کی ہے۔