کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں
سے مل کر چلتا ہے حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے حاکم کو چاہیے
کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے انصاف سے کام لے رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آئے ان کی ضروریات کو پورا کرے۔
احادیث کی روشنی میں رعایا کے حقوق:
1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے
اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و
عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔ (مسلم، ص 783، حدیث:
4721ملتقطا)
2۔ بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پہ ظلم
کرے۔ (مسلم، ص 785، حدیث: 4733)
3۔ جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنانے
اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام
فرما دے گا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)
4۔ امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ جو
میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت
میں مبتلا فرما اور جو کوئی میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان سے نرمی
سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)
5۔ سرکار علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے بہترین
حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو اور وہ تمہیں دعائیں دیں
اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جو تم سے نفرت کریں اور تم ان سے نفرت کرو تم ان پر
پھٹکار کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)
لہذا حاکم کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے عفودر گزر سے کام لے اور
لوگوں کے عیب کی پردہ پوشی کرے حاکم کو چاہیے کے وہ صاحب ثروت اور طاقتور لوگوں کے
ساتھ زیادہ میل جول رکھنے کی بجائے غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ اپنا زیادہ وقت
گزارے حاکم کو چاہیے کہ لوگوں کو مشتبہ کاموں میں پڑنے اور معصیت کا ارتکاب ہونے
میں دیر نہ ہونے دے اور مشکوک مقامات اور محافل میں شرکت سے اجتناب کرے۔