ملک کا
نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو رعایا کے
ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی تاکید کرتا ہے۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کے
درمیان درست فیصلہ کرے۔ اللہ جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمے عوام کے
کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حکمران بروز قیامت بارگاہ الہی
میں رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ حضرت کعب
الاحبار فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران برا
ہو تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں۔ (1)
اگر
حکمران رعایا کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے گا تو معاشرے میں امن و سلامتی پھیلے
گی۔ آئیے ہم رعایا کے پانچ حقوق پڑھتے ہیں:
رعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے
فرمایا: میں نے نبیِّ کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا
والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس
طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت
و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی
مقرر فرما دیا۔(2)
اجتماعی عدل کا نفاذ: حاکم
کا عدل و انصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے اور اس معاملے میں احسان کے لیے
اہل یا نااہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عدل و انصاف ہر نیک و بد کو
حاصل ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرے۔
تحفظ اور خیر خواہی: رعایا کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی
خبرگیری کرنا حاکم کے فرائض میں سے ہے۔ ایک روایت میں ہے: جو مسلمانوں کے امور پر
والی بنایا جائے پھر ان کے لیے کوشش نہ کرے اور ان سے خیر خواہی نہ کرے تو وہ ان
کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (3)
حاکم کو
چاہیے کہ وہ رعایا کی خبر گیری کرتا رہے جیسے حضرت عمر فاروق اعظم بھی رات کے وقت
لوگوں کے حالات کا جائزہ کرتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے، چنانچہ ایک مرتبہ امیرُ
المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور
ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے
حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا
تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی
کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب: دیا وہ اتنے عرصہ سے میری
خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے
کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی
اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (4)
رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ
اللہ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو (وه) اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اس سے چمٹ
جاتا ہے۔ (5)
رعایا پر سختی اور تنگی نہ کرنا: ابو موسی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے بعض
کو اپنے کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور
آسانی کرو سختی نہ کرو۔ (6)
اللہ
پاک ہمارے حکمرانوں کو بھی عدل کرنے والا اور رعایا پر نرمی و آسانی کرنے والا
بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
حوالہ جات:
1۔
اللہ والوں کی باتیں، 5/491
2۔
مراۃ المناجیح، 5/373
3۔
مسلم، ص78، حدیث: 366
4۔
اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117
5۔
مراۃ المناجیح، 5/382
6۔
مسلم، ص 739، حدیث: 4525