ہم پر شریعت نے مختلف احکام لاغو کیے ہیں جن کو ادا
کیے بغیر زندگی کےمعاملات صحیح طور پر نہیں چل سکتے۔ اور نہ ہی امن کاگہوارا قائم
ہو سکتا ہے اور جہاں پر رعایا کے زمے حاکم کے حقوق ہوتے ہیں وہی حاکم پر بھی رعایا
کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا حاکم پر لازم ہوتا ہے۔ ہمارا دین اسلام بھی
حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاو کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ لہذا رعایا کے حقوق
حدیث پاک کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے۔
1۔ رعایا کو دھوکہ نہ دینا: جو
کوئی امیرمسلمانوں کی حکومت کا والی بنے،نہ انکی خیر ہواہی کرے، انکے ساتھ نہ پوری
کوشش کرے،تو وہ انکے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ اس حدیث مبارک میں ان حکمرانوں کے لیے سخت وعید
آئی ہے جو اپنی رعایا کی بہتری کے لیے پوری کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں دھوکا دیتے
ہیں اور توبہ کیے بغیر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ انکے لیے جنت حرام ہے کیونکہ اتنے
بندوں کے حق وہ قیا مت کے دن کہاں سے ادا کرے گے؟
2۔ رعایا پر شفقت رحمت کرنا: بادشاہ
عوام کی دیکھ بھال کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے انہیں رعایا کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول ﷺ
نے فرمایا کہ جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی رحم نہیں
فرماتا۔ (بخاری، 4/531، حدیث: 7376)
3۔ رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسول
ﷺ نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرےپھر جب وہ ظلم کرتا
ہے تواس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مراۃ المناجیح،5/382)
4۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسول
ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرےاور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کے لیے
دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرےاور اس میں غلطی کر جائے تو بھی اس
کے لیے ایک اجر ہے۔ (فیضان فاروق اعظم،2/337)
5۔ رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت
ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لیے
بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفرنہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی
نہ کرو۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 4525)