طلاق ایک ایسا عمل ہے جس کا تاوان پورے خاندان کو ادا کرنا پڑتا ہے۔طلاق ایک شادی نہیں بلکہ ایک ایسی زندگی کا خاتمہ بھی ہوتا ہے جس کا حصہ والدین اور بچے دونوں ہوتے ہیں۔اس کے نتائج دور رس ہیں اور اس عمل کے نتائج سے گزرناآسان کام نہیں۔ طلاق زندگی کی اتنی بڑی تبدیلی ہے جو بچوں سمیت خاندان سمیت ہر فرد کو متاثر کرتی ہے۔بہت سے جذباتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

خاندان کے طلاق کے بارے میں لوگ منفی رائے قائم کرتے ہیں، طلاق کی وجہ سے نہ صرف ازدواجی رشتہ خراب ہوتا ہے بلکہ خاندان بھی ٹوٹ جاتے ہیں، جب طلاق ہوتی ہے تو خاندان میں نہ صرف مالی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں بلکہ بچوں کے ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہیں۔

طلاق کے ہتھیار کو بے دریغ استعمال کرنے کی وجہ سے معاشرے کا امن و سکون اور اعلی اقدار روبہ زوال ہیں۔ معاشرتی زندگی میں سخت بے چینی واضطراب ہے۔ دلخراش اور جذبات کو لہو لہان کرنے والے بیسیوں واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے اور روح پر غم و اندوہ چھا جاتا ہے اس لیے چاہیے کہ دونوں طرف کے نا اتفاقی کی بجائے اتفاقی ہونی چاہیے تاکہ نازک سے رشتے کو بچایا جا سکے۔نکاح کے ساتھ جڑا ہوا ایک معاملہ طلاق کا بھی ہے کہ بعض اوقات ایک ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے تو جدائی تک نوبت آجاتی ہے۔ اب اس جدائی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے، اس معاملے میں مختلف مذاہب میں مختلف طریقے رائج ہیں، لیکن اسلام کا طریقہ ان سب میں معتدل اور فریقین کے لئے بہترین ہے۔ اس طریقے پر عمل نہ کرکے اگر کوئی شخص نقصان اٹھائے یا دوسرے کو نقصان پہنچائے تو یہ اس کا اپنا معاملہ ہے، طریقے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقت ہے کہ اسلامی طریقے کی پوری طرح پیروی کی جائے تو پھر اس سے بہتر طریقہ ممکن نہیں۔

اگر میاں بیوی میں کچھ ان بن ہوجائے تو آپس میں افہام و تفہیم یعنی بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھا کر معاملہ صحیح کرلیں اور اپنی زندگی لوگوں، خاندان اور اپنے بچوں کے سامنے تماشہ نہ بنائیں، چنانچہ فرمایا: وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا(۳۴) ( پ5، النساء: 34 ) ترجمہ کنز العرفان: اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ( نہ سمجھنے کی صورت میں ) ان سے اپنے بستر الگ کرلو اور ( پھرنہ سمجھنے پر ) انہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو ( اب ) ان پر ( زیادتی کرنے کا ) راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔

طلاق کے بعد شوہر حساب کتاب کرنے بیٹھ جائے کہ شادی پر ہمارا اتنا خرچہ ہوا تھا، فلاں موقع پر ہم نے اتنی رقم خرچ کی تھی، فلاں موقع پر بیوی کو یہ تحفہ دیا تھا، لہٰذا اب یہ ساری رقم بیوی یا اس کے گھر والے ہمیں ادا کریں۔ شوہر کو حکم دیا گیا کہ یہ حرکتیں نہ کرے اور یہ اس کے لیے ہر گز جائز نہیں، بلکہ شوہر نے جو کچھ بیوی کو دے دیا، وہ اب بیوی کا ہے، شوہر کو اس میں سے کچھ بھی واپس طلب کرنا حلال نہیں۔

دین اسلام کے ان احکام کو ذرا دل کی گہرائیوں سے پڑھیں اور غور کریں کہ جب طلاق جیسے جدائی کے مرحلے میں دین اسلام قدم قدم پر عورتوں کے حقوق کی رعایت اتنے شان دار انداز میں کرتا ہے تو عام زندگی میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی کیسی خوبصورت تعلیم و تاکید ہوگی۔طلاق کی وجہ سے خاص طور پر بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑوں کو خود ہی سلجھانے کی کوشش کریں تاکہ بعد میں یہ بڑے مسائل تک نہ پہنچیں۔

اللہ پاک ہمیں امن و سکون سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔