خودغرضی
از بنت طفیل الرحمان ہاشمی، جامعۃ المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
خود غرضی (selfishness)
کسی کا ایسا برتاؤ، سوچ یا رویے کا نام ہے جس میں حد سے زیادہ یا کسی بھی فکر سے
بالاتر ہو کر ایک شخص اپنی ذاتی مفاد اور بہتری، تفریح، خوشی اور سکون پر توجہ
دیتا ہے اس بات کے قطع نظر کہ اس کا یہ خود غرضانہ سوچ اور رویہ دوسروں کے لیے کس
حد تک مضر ہو سکتا ہے۔
یہ ایک فطری
عمل ہے اور ہر انسان کی طبیعت میں شامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوچے اور خود
کے وجود پر توجہ دے اور اس عمل میں کوئی برائی اور حرج بھی نہیں جب تک کہ آپ اپنے
فائدے کی بنیاد دوسرے کے نقصان پر نہیں رکھتے۔
یاد رکھیے! اپنی
لیے سوچنے اور صرف اور صرف اپنے لئے ہی سوچنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جائزہ لیا جائے
تو ہمارے معاشرے کا ہر ایک دوسرا فرد ہی اس خودغرضانہ منفی سوچ میں مبتلا دکھائی
دیتا ہے جو نہ صرف اپنے لیے ہی سوچتا ہے بلکہ اپنے آپ میں اس حد تک گم ہوتا ہے کہ
اپنی غرض کے حصول کے لیے دوسروں کے سکون اور خوشیوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے میں
کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
افسوس! آج
ہمارے معاشرے کے ہر رشتے میں ہی خود غرضی پائی جاتی ہے میاں بیوی ہوں یا بہن بھائی
یا پھر دوست ہر شخص ہی یہ چاہتا ہے کہ بس اسی کا خیال رکھا جائے، صرف اسی کی خوشی
کو مقدم رکھا جائے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ دوسرا خوش ہے یا نہیں؟ اور بعض
لوگوں میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ محبت بھی کی جائے تو اس قدر خود غرض ہو کر کی
جاتی ہے کہ جب تک مطلب نکلتا رہے خود کو اپنے مفاد حاصل ہوتے رہیں تو یہ محبت کا
تعلق قائم رہتا ہے ورنہ آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگتی۔
خود
غرضی کی مثالیں:
خود کو بلند کرنے کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانا، اپنے مطلب کے لئے لوگوں سے رابطے
رکھنا اور مطلب نکل جانے کے بعد مکمل طور پر نظر انداز کر دینا، دوسروں کی کامیابی
پر ناخوش ہونا اور اپنی کامیابی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، اپنے لیے یہ چاہنا کہ
ہمیں بہت کچھ بلکہ سب ہی کچھ مل جائے اور دوسروں کے لیے کچھ زیادہ نہ رہے۔
خود غرض انسان
اپنی خود غرضی کے دلدل میں اس حد تک دھنس جاتا ہے کہ یہ بھول جاتا ہے اس کے خالق
نے اسے دوسروں کے کام آنے کا حکم دیا ہے حقوق العباد کو مقرر کیا ہے مل جل کر رہنے
کا فرمایا حضور ﷺ نے کامل مومن اسے ارشاد فرمایا جو دوسروں کے لیے بھی وہی پسند
کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری،
1/16، حدیث: 13) اللہ اور اس کے محبوب ﷺ نے ہمیں متعدد مقامات پر ایثار،
خیر خواہی،عجز و انکساری، ہمدردی اور غم خواری جیسے جذبات کو ابھارنے کا حکم ارشاد
فرمایا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی
ذات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے آپ کی ذات ایثار و قربانی کے جذبے کا پیکر ہے آپ ﷺ کے
تربیت یافتہ صحابہ کرام بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو ایثار کی بہترین
مثالیں سامنے آئیں گی جبکہ خود غرضی کو قرآن پاک میں منافقوں کا وصف بیان کیا گیا
ہے۔
خود
غرضی کے نتائج:
خود غرضی انسان کو بہت سے گناہوں میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے. مثلا: جھوٹ
بولنا، رشوت کا لین دین، دوسروں پر ظلم کرنا،کسی کا حق مارنا، چوری کرنا،اپنی ترقی
کے لیے دوسروں کے خلاف سازشیں کرنا، ناشکری،شر پسندی وغیرہ وغیرہ۔
خود غرض انسان
اپنے قریبی اور انمول رشتوں کو کھو دیتا ہے۔
خود غرض انسان
کامیابی کی منزلوں کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ وہ بہت سے لوگوں کے حقوق کو تلف کر کے
اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا اور اللہ کی ناراضی کو مول لیتا ہے۔
معاشرتی زندگی
کو بہتر بنانے کے لیے ان منفی رویوں کی روک تھام کرنا نہایت ضروری ہو گیا ہے ہر
شخص کو چاہیے کہ اپنا احتساب کرے اور حتی الامکان اپنی ذات کو خود غرضی سے محفوظ
بنائے خود کو بہتر کرنے کے لیے ایثار اور خیر خواہی جیسے اخلاقی اوصاف اپنانے کے
لیے کوشاں ہوں اور اپنی زندگی کو اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
فرمانبرداری میں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے پر کاربند ہو جائیں۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں خودغرضی سے نجات عطا فرمائے۔