دیگر باطنی
امراض کی طرح خود غرضی بھی ایک ایسی آفت ہے جو انسان کو دیگر برائیوں کی طرف لے
جاتی ہے جیسے دوسروں کو ایذا دینا، کسی کا حق مارنا، چوری کرنا، تہمتیں لگانا
وغیرہ۔ خود غرض انسان اپنے مفادات، خوشی اور کامیابی کے لیے دوسروں کے حقوق اور
احساسات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ خود غرضی کرنے والا شخص دنیا میں تو نقصان
اٹھاتا ہی ہے، دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی نقصان اٹھائے گا۔
یقینا خود
غرضی منافقوں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں منافقوں کی خود غرضی کے حوالے سے
رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنَّ
مِنْكُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّۚ-فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ
اللّٰهُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَهُمْ شَهِیْدًا(۷۲) وَ لَىٕنْ اَصَابَكُمْ
فَضْلٌ مِّنَ اللّٰهِ لَیَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهٗ مَوَدَّةٌ
یّٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۳) (پ 4،
النساء: 72، 73) ترجمہ کنز العرفان: اور تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ضرور دیر
لگائیں گے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑے تو دیر لگانے والاکہے گا: بیشک اللہ نے
مجھ پر بڑا احسان کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔اور اگر تمہیں اللہ کی طرف
سے فضل ملے تو (تکلیف پہنچنے والی صورت میں تو ) گویا تمہارے اور اس کے درمیان
کوئی دوستی ہی نہ تھی (جبکہ اب) ضرو ر کہے گا: اے کاش میں (بھی) ان کے ساتھ ہوتا
تو بڑی کامیابی حاصل کرلیتا۔ مکمل
اس آیت مبارکہ
کے حوالے سے تفسیر صراط الجنان میں ہے: یہاں منافقوں کا بیان ہے کہ منافقوں کی
حالت یہ ہے کہ حتَّی الامکان میدانِ جنگ میں جانے میں دیر لگائیں گے تاکہ کسی طرح
ان کی جان چھوٹ جائے اور اگر پھر واقعی ایسا ہوجائے کہ مسلمانوں کو کوئی مصیبت آپہنچے
اور یہ منافقین وہاں موجود نہ ہوں تو بڑی خوشی سے کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے کہ
میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میں بھی مصیبت میں پڑجاتا اور اگر اس کی جگہ مسلمانوں
پر اللہ کا خصوصی فضل ہوجائے کہ انہیں فتح حاصل ہوجائے اور مالِ غنیمت مل جائے تو
پھر وہی جو تکلیف کے وقت اجنبی اور بیگانے بن گئے تھے اب کہیں گے کہ اے کاش کہ ہم
بھی ان کے ساتھ ہوتے تو ہمیں بھی کچھ مال مل جاتا۔ گویا منافقین کا اول وآخر صرف
مال کی ہوس ہے۔ انہیں نہ مسلمانوں کی فتح سے خوشی اورنہ شکست سے رنج بلکہ شکست پر
خوش اور فتح پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔
اس سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ خود غرضی، موقع شناسی، مفاد پرستی اور مال کی ہوس منافقوں کا طریقہ
ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوتا جو تکلیف کے موقع پر تو کسی کا ساتھ نہ
دے لیکن اپنے مفاد کے موقع پر آگے آگے ہوتا پھرے۔ مفاد پرست اور خود غرض آدمی کچھ
عرصہ تک تو اپنی منافقت چھپا سکتا ہے لیکن اس کے بعد ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہوتی
ہے۔ (صراط الجنان، 2/249)
اسلام میں خود
غرضی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ اسلام کی روشن تعلیمات تو ہمیں ایثار، خیرخواہی،
ہمدردی اور غم خواری سکھاتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں کامل ایمان
والا وہ ہے جو اپنے بھائی کےلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث: 13)
صحابہ
کرام کا مبارک عمل: نبی کریم ﷺ کے پیارے صحابہ کرام کی عادت مبارکہ تھی
کہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتے دوسروں کے بارے میں سوچتے اپنی فکر نہ کرتے۔ جیساکہ جنگِ
یرموک کا واقعہ ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یرموک کی جنگ میں بہت سے
صحابۂ کرام شہید ہوگئے۔ میں پانی ہاتھ میں لئے زخمیوں میں اپنے چچا زاد بھائی کو
تلا ش کر رہاتھا، آخر اسے پالیا، وہ دم توڑ رہے تھے، میں نے پوچھا: اے ابنِ عم!
یعنی اے چچا زاد بھائی آپ پانی نوش فرمائیں گے؟ کپکپاتی ہوئی آواز میں آہِستہ سے
کہا: جی ہاں۔ اتنے میں کسی کے کراہنے کی آواز آئی، جاں بلب چچا زاد بھائی نے اشارے
سے فرمایا: پہلے اس زخمی کو پانی پلا دیجئے۔ میں نے دیکھا وہ حضرت ہشام بن عاص رضی
اللہ عنہ تھے، اُن کی سانس اکھڑ رہی تھی میں انہیں پانی کے لئے پوچھ ہی رہا تھا کہ
قریب ہی کسی اور کے کراہنے کی آواز آئی، حضرت ہِشام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پہلے
اُن کو پلائیے، میں جب ان زخمی کے قریب پہنچا تو ان کو میرا پانی پینے کی حاجت نہ
رہی تھی کیوں کہ وہ شہادت کا جام پی چکے تھے۔ میں فورا حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کی
طرف لپکامگر وہ بھی شہیدہوچکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کی طرف پہنچا تو وہ
بھی شہادت پاچکے تھے۔ رضی اللہُ عنہم اجمعین (کیمیائے سعادت، 2 / 648)
صحابہ کرام کے
عملِ مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے دل میں دوسروں کے لیے ہمدردی، محبت اور
خدمت کا جذبہ پیدا کرے اور خود غرضی جیسی آفت سے دور رہے۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں ظاہری امراض کے ساتھ ساتھ باطنی امراض سے بھی محفوظ فرمائے اور
دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین