ارسلان حسن عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

ہر شخص نگہبان
ہے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ
ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جواب دہ ہوگا۔ بھر جس خوش نصیب نے اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ شفقت و محبت خیر خواہی ،
امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہوگا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے
گا. اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت ظلم و ستم حق تلفی کا
مظاہرہ کیا ہوگا وہ رحمت خداوندی سے محروم رہے گا۔ اس لیے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھ پور کوشش کرے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی
و کامرانی سے ہمکنار ہو سکے۔
1)خیر
خواہی کرنا :-حضرت معقل بن یسار رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو
اللہ تعالی نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی
نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری کتاب
الاحکام حدیث 7150)
(2)
انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ۔ نظام
عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ علماء نے
فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابرسلوک کرے۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو کو موقع دے دوسرے کو
بھی دے
(2) نشست
دونوں کو ایک جیسی دے. (3) دونوں کی طرف برابر متوجہ رہے (4) کلام سننے میں ہر ایک
کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے (5) فیصلہ دینے۔ میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دلائے ۔ حدیث شریف میں ہے
کہ انصاف کرنے والوں کو قرب الہی میں نور کے منبر عطا لئے جائیں گے۔ (مسلم کتاب
الامارة ص 1015 )
(3)
رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا.حکمرانی قائم رکھنے کے لیے رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دینا فرعون
. جیسے بدترین کافر کا طریقہ ہے۔ دیکھا
جائے ہمارے دور میں بھی یہی طریقہ رائج ہے
مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے حکمران لوگوں کو مختلف مسائل میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ لوگ ان مسائل میں ہی سے
نہ نکل پائیں اور ان کی حکمرانی قائم رہے. اس طرز عمل کے نتیجے میں ان حکمرانوں کا
جو حال ہوتا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ اللہ تعالی انہیں عقل سلیم اور ہدایت عطا
فرمائے۔
(4)
ظالم حکمران کی وعید سرکار نامدار
مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان عالیشان ہے۔ چار قسم کے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا 1) قسم کھا کر مال بیچنے والا (2) متکبر فقیر .(3)
بوڑھا زانی (4) ظالم حاکم (فیضان ریاض الصالحین جلد 5 ص607)
5)
محبت کرنا۔ حضرت سیدنا عوف بن مالک
اشجعی رضی الله منه؛سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم ان سے محبت کرو تم انہیں
دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور
وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں ( فیضانِ ریاض الصالحین
جلد 5 ص 611)

کسی بھی ملک یا
سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دین اسلام حکمرانوں کو دعایا
کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر دعایا کی دیکھ بال
اور ان کے درمیان درست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمة الله علیه
بیان کرتے ہیں کہ حضرت سيدنا كعب الاحبار
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہوں تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں
اور حکمران برے ہوں تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں لہذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک
کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی ہو ۔ آئیے اب دعایا کے حقوق سنیئے
(1) دعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا : حضرت
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ
خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو (مراۃ المناجیح جلد5
ص416)
(2) دعایا کی ضرورت وحاجت کو پورا کرنا :حضرت عمرو بن مرۃ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت
معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ
جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت
ومحتاجی کے سامنے حباب کردے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت وحتاجی کے سامنے آڑ فرمادے
گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا (مراة المناجیح جلد5 ص 419)
(3)
رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا۔ حضرت
عبد الله بن عمر اور ابو ھریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو
ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے (مراة
المناجیح جلد 5 ص 422)
(4) رعایا پر ظلم نہ کرنا : حضرت عبد الله بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے جب تک وہ ظلم
نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔
(مراة المناجیح جلد5 ص 429)
(5) رعایا کی خبر گیری
: حضرت سید یحییٰ بن عبداللہ اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ امیر
المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور
دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت سیدنا طلحہٰ رضی الله عنه یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ
صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو
وہاں ایک نابینا
اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو
تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے ۔
حضرت سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے ۔ آپ
کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیر المومنین عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص
116)
زین باجوہ (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)

رعایا اور
سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے
عدم ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی
شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند کرداروں کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے اور یہی
چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کا
بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی
خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور
انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار اور خلفشار کو
سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف
واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے اور یوں
سول نافرمانی یا طوائف الملوکی کی صورت میں معاشرہ شکست و ریخت سے دوچار ہو
کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔
دنیا میں ہم
انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا
دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ
واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی
ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ
داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ
داری پوری پوری نسبت سے عائد ہوتی ہے۔
حکمرانی بہت
بڑی آزمائش ہے، اگر حکمرانی کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو یہ وبال جان ہے،
باعث پکڑ ہے اور اگر حاکم خوف خدا رکھنے والا ہو ، عدل وانصاف سے کام لیتا ہو تو
وہ زمین پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کا سایہ ہے، رعایا کے لئے نعمت ہے ، اللہ
عَزَّ وَجَلَّ کا پسندیدہ ہے۔ حدیث ذکور میں اس حاکم کے لئے جنت سے دوری کی وعید
ہے جو اپنی رعایا کو دھوکا دے، ان کے ساتھ خیر خواہی نہ
کرے، ان کے معاملات کے حل کی کوشش نہ کرے۔
الله عَزَّ
وَجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاخْفِضُ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ
مِنَ المؤمنین ترجمہ کنزالایمان:
اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو تابع مسلمانوں کے لئے ( ۱۹ ،
الشعراء : ۲۱۵) تفسیر
روح البیان میں ہے: یعنی مؤمنین کے لئے نرمی کیجئے ، انہیں اپنی صحبت بابرکت سے نوازیئے ان کی غلطیوں
کو تاہیوں سے درگزر کیجئے، ان کے بڑے احوال سے چشم پوشی فرما کر ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیجئے۔
اپنی رعیت
کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے۔«وعن
معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:
ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه
الجنة متفق عليه» معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا
دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو
تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع:
1285] [بخاري 7150]،[مسلم، الايمان142]،
محمد روحان طاہر (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

اللہ تعالیٰ
جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو
پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعال کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔
1)حکمران
کی اطاعت ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی
فرماتا ہے (يَأَيُّهَا
الَّذِينَ ءَامَنُوْا أَطِيْعُوْ اللّٰهَ وَأَطِيْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِیْ
الَّامْرِ مِنْکُمْ) ترجمہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی
فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں. (سورۃ النساء آیت 59)
2
)حاکم کی بات سننا۔ان کی بات سنو
اور اطاعت کرو۔ ان کی ذمہ داری کا بار (بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری ذمہ داری کا
بوجھ تم پر . (صحیح مسلم )
3)
حاکم کی اطاعت کرنا لازم۔مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ
کام اسے پسند ہو یا نآپسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ
سنے اور نہ اطاعت کرے( صحیح مسلم و صحیح بخاری)
4)ظالم
حکمران کی وعید ۔سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان عالیشان
ہے۔چار قسم کے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔(1) قسم کھا کر مال بیچنے والا
(2)متکبر فقیر(3) بوڑھازانی (4)ظالم حاکم۔( ریاض الصالحین جلد 5 ص 607)5
5)رمایا
کا غداد ۔نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالٰی نے جسے رعایا کا حاکم و نگہبان بنایا اور وہ اس
حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری کرتا تھا تو اللہ تعالٰی
اس پر جنت کی حرام فرما دے گا۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 81)
ضیاء المصطفیٰ (درجۂ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)

اللہ تعالٰی
جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے زمہ عوام کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو پورا
کرنا ضروری ہوتا ہے بروز حشر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حکمران اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا ۔
(1)
رعایا کی خبر گیری رکھنا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک
کوڑا خانہ کے پاس سے گزرے تو وہاں رک گئےرفقا کو اس کی بدبو سے اذیت ہوئی تو آپ نے
فرمایا یہ تمہاری دنیا ہے جس کی تم حرص و لالچ کرنے اور اسی کے گن گاتے ہو ۔( اللہ
والوں کی باتیں جلد 1 ص (117)
(2)
رعایا کے ساتھ محبت کرنا۔حضرت سیدنا
عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ مسکینوں کے ساتھ محبت فرماتے اور ان کے ساتھ
کھانا تناول فرمانے حتی کہ اس وجہ سے آپ کے جسم میں کمزوری پیدا ہوگئ آپ رضی آللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ کھجوروں
کا شیرہ تیار کر کے کھانے کے ساتھ آپ کو پلایا کرتی تھیں ( اللہ والوں کی باتیں
جلد 1 ص (525)
(3)
رعایا کی خیر خواہی کرنا۔ حضرت سیدنا
عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مجھے کسی مسلمان گھرانے کی
مہینہ پھر یا ہفتہ بھر یا جتنے دن اللہ عزوجل چاہے اتنے دن کفالت کرنا نفلی حج
کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کو الله عز وجل کی رضا کے لیے
ایک ذانق کے برابر مال ہدیہ کروں یہ مجھے اللہ عزوجل کے راستے میں دنیا خرچ کرنے
سے زیادہ پسند ہے۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 575)
(4)
دعایا کو دھوکا دینے والے حکم کا انجام۔حضرت سیدنا ابو یعلیٰ معقل بن یسار سے مروی ہے
کہ میں نے رسول الله کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو الله اس پر جنت حرام فرما دے گا (فیضان ریاض
الصالحین ج 5 ص 603)
عتیق الرحمن (درجۂ خامسہ ( جامعۃُ المدینہ شیرانوالہ گیٹ
لاہور ، پاکستان)

ملک کی ترقی و
خوشحالی کے لیے حکمران اور رعایا کے باہمی
تعلقات کا بہتر اور خوش گوار ہونا ضروری ہے اچھے اخلاق کے زمرہ میں عوام پر لازم
ہے کہ وہ اپنے مسلم حکمران کی عزت کرے اور رعایا کو چاہئے کے
ہر جائز امر میں اپنے حکمران کی اطاعت کرے جائز امر سے مراد کہ جو شریعت کے خلاف نہ
ہو اور اگر حکمران کی شکل وصورت اچھی نہ
ہو اور پستہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہو پھر بھی عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمران کا احترام کرے جب تک حاکم
کفر بواح کا ارتکاب نہ کر لے کفر بواح میں
علماء اکرام کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد واضح کفر ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد فسق و فجور ہے اور جب حکمران اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جیسے
زنا کرنا شراب پینا وغیرہ میں مبتلا ہونا جب یہ چیز حاکم کی مشہور ہو جائے تو اب عوام پر اس حکمران کی اطاعت واجب نہیں
ہے امیر کی اطاعت ضروری ہے اس پر کثیر احادیث
دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہے
حدیث
مبارکہ: ترجمہ: کریم آقا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے امیر کی اطاعت اس نے میری اطاعت کی اور
جس نے امیری کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ( بخاری شریف جلد نمبر 2 کتاب الاحکام صفحہ نمبر 601) اس حدیثِ پاک سے یہ پتا چلا کے امیر کی اطاعت ضروری ہے
حدیث
مبارکہ: ترجمہ: کریم
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی کان کٹا کالا غلام حاکم و امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم اس
کی بات سنو اور حکم مانو
اس حدیثِ پاک
سے ہمیں 3 چیزیں سیکھنے کو ملی : 1:حکمران کی شکل اچھی نہ ہو تو بھی اس کی
اطاعت کرنی چاہیے ۔ 2: اس کی جسامت میں کوئی عیب ہو تو بھی اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔3:
اگر وہ حاکم قرآن کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کی سننی چاہیے اور اس کی اطاعت کرنی
چاہیے اور اگر فیصلہ قرآن کے مطابق نہ ہو
تو اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔
پیارے پیارے
اسلامی بھائیوں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان حکمران کی اطاعت کرے
جو قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں اللہ ہمیں ایسا حکمران نصیب فرمائے
آصف علی (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

اللہ تعالی جب
کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا
کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ تواضع و انکساری:مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما
م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ
آئے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا
ہے۔
2)چغلی
پر عمل سے اجتناب : رعایا کا دوسرا
حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان
نہ دھرے خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا
نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اگر کوئی
فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ درگزر: جب کسی
کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود
ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے اسے معاف
کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالی
اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی
طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی
وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
3)اجتماعی
عدل کا نفاذ : حاکم کا عدل وانصاف
تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا اہل
کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عد ل و انصاف ہر نیک اور بد کو حاصل ہو
نا چاہیے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ انسان
لوگوں کے ساتھ محبت کرے اور ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ بھلائی کرے۔ چادر اور
چار دیواری کا تحفظ : رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام
مسلمان کے چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کرے اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں
داخل نہ ہو۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو تین مرتبہ آواز دے کر اجازت طلب کرتے اور
اگر اجازت نہ ملتی تو وآپس چلے جاتے اور اس بات کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے تھے
4(رعایا
پر شفقت کرنے والا حاکم ہو.- حضرت
سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے خلیفہ وہ ہے جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرے اور
رعایا پر اس طرح شفقت کرے جس طرح آدمی اپنے اہل و عیال پر شفقت کرتا ہے۔
(کتاب الاموال لابی عید (6)
5)اسلامی
حاکم میں امانتداری کی خوبی کا ہونا:۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جس کو ہم کسی کام کا عامل بنائیں اور اس پر جو روزی ( تنخواہ ) اسے دیں تو جو اس
کے بعد اور لے گا تو وہ خیانت ہے ( ابوداؤد کتاب القضاء ) اسلام کے مطابق حاکم کے
لئے دیانت داری اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک حاکم خود سادگی اور ایمانداری کا
عملا ثبوت پیش نہیں کرے گا وہ کسی طرح غریب رعایا کی خدمت کر سکتا ہے۔(مسلم)
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دس آدمیوں
کا بھی امیر ہو وہ قیامت کے روز طوق پہنا کر لایا جائے گا یہاں تک کہ انصاف اسے
چھڑا دے گا یا ظلم اسے ہلاک کر دے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَمِيرِ عَشَرَةِ إِلَّا يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ
الْقِيمَةِ مَغْلُولَا حَتَّى يَقُلَّ عَنْهُ الْعَدْلُ أَوْ يُويقَةُ الحور ( مالقوة كتاب الامارة والقضاء)
محمد فیصل فانی (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ پیراگون سٹی لاہور
، پاکستان)

ارشاد باری
تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا
کرو‘‘۔ درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے
کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن
گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے
تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے
حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
فرمان مصطفوی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے
اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
”راعی“ کا معنی ہے چرواہا
، نگہبان، محافظ ، حاکم ، بہت الفت کرنے والا اور ”رعیت“ وہ ہے جس کی وہ حفاظت کرے
، جسے چرائے اور جس سے خوب الفت ومحبت سے پیش آئے۔ ان معانی کے لحاظ سے ”راعی“ کا
لفظ مویشی کے نگہبان ، چرواہا کسی بھی معمولی سے معمولی کام کا ذمہ دار، افسر ،
حکومت کی انتظامیہ ، عدلیہ ، مقننہ ، وزیراعظم ، صدرمملکت ، بادشاہ ، خلیفہ سب کو
عام ہے اور ان کے ماتحت ان کے دائرہ اختیارتک کے لوگ ان کی رعایا ہیں۔ ساتھ ہی یہ
معنی اس بات کا ذہن دے رہے ہیں کہ راعی ایسا شخص ہونا چاہئے جو اپنی رعایا کی نگہبانی بڑی شفقت ومحبت کے ساتھ کرے۔ احادیث نبوی میں بھی یہ معنی
لغوی کے عموم کی رعایت کی گئی ہے اور چھوٹے بڑے ہرطرح کے ذمہ دار پر اس لفظ کا
اطلاق کیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی
ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
بادشاہ لوگوں
کا راعی ہے تو اس سے اس کے زیر نگرانی اشخاص ورعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ آدمی اپنے گھروالوں کا راعی ہے اس سے ان کے بارے میں پرسش ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بال بچوں کی نگراں وراعی ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھ
گچھ ہوگی اور غلام یا نوکر خادم اپنے آقا کے مال واسباب کا نگہبان ہے۔ اس سے اس کا
محاسبہ ہوگا، تو باخبر رہو ، تم میں کا ہر شخص راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی
رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری، ص1057)
”امام“ کا لفظ صدرمملکت ،
سلطان ، خلیفہ سب کو عام ہے اس حدیث پاک میں مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
نے بادشاہ ، وزیر، عورت، نوکر چاکر، غلام سب کو اپنے اپنے دائرہ اختیار کا ذمہ دار قراردیا ہے اور ساتھ ہی
اس امر سے بھی آگاہ فرمادیا ہے کہ کل میدان قیامت میں سب کو خدائے جبار وقہار کے
حضور جواب دہ ہونا ہوگا، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ پھر ہر شخص کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے ،
کیوں کہ اللہ عزوجل سب کے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور وہ سب کی جزا وسزا کا مالک ہے۔
صحابی رسول حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض وفات میںبصرہ کا حاکم عبیداللہ
بن زیاد ان کی عیادت کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا : ”میں تجھ سے ایک حدیث بیان
کرناچاہتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی
نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہ پائے گا۔ (صحیح البخاری 10582) دوسری روایت میں
فرمانِ نبوت کے الفاظ یہ ہیں”اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور
وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس
پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)”
رعایا کا غدار“ وہ
ہے جو ان کے حقوق کی نگہبانی نہ کرے، اور ان کے دشمنوں سے انہیں نہ بچائے ۔ اس کے
ساتھ عدل وانصاف نہ کرے ، یا اپنے اور پرائے میں امتیاز کرے، جب کہ حاکم کی ایک
بہت بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے پرائے امیر ، غریب سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے۔
قرآن حکیم میں اس تعلق سے یہ واضح ہدایت ہے: ”اور تم کوکسی قوم کی عداوت اس پر نہ
ابھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ رعایا کی حفاظت
وخیر خواہی میں ان کے دین ، جان ، مال ، عقل ، نسب وغیرہ حقوق کثیرہ کی حفاظت
ونگہبانی شامل ہے جس کی ذمے داری براہ راست ان کے راعی وحاکم کے سرہی عائدہوتی ہے
اور اس کے لئے نظام عدل کا قیام، اپنے پرائے ، امیروغریب سب کے ساتھ
مساوی سلوک، اپنے فرائض میں دھوکہ ، فریب ، بدعہدی ، خیانت سے
احتراز ، اعلیٰ ظرفی ، خیرخواہی ، رفق ولطف اور حلم بردباری ضروری ہے۔
محمد ہارون عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق
اعظم سادھوکی لاہور)

کسی بھی ملک
یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو
رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی
دیکھ بھال اور ان کے درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمۃُ
اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت كعبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ
حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ بھی بگڑ جاتے
ہیں۔(اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہٰذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہئے تاکہ
معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ آئیے!
رعایا کے 5 حقوق پڑھئے:
(1)رعایا پر
سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے
تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو۔(مسلم،
ص739، حدیث: 4525)
(2)رعایا
کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم
بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس طرح کہ
مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی
کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر
فرما دیا۔(مراٰة المناجیح، 5/373)
(3)رعایا
کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے
اور وہ فیصلہ درست ہوتو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے
اور اس میں غلطی کرجائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔(فیضانِ فاروق اعظم،2/337)
(4)رعایا
پر ظلم نہ کرنا: رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جب تک وہ
ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا
ہے۔(مراٰة المناجیح، 5/382)
(5)رعایا
کی خبر گیری: حضرت یحییٰ بن
عبداللہ اوزاعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق
اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل
ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی
اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک
نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ
ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب: دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا
ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں
تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل
سکتا۔(اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)