محمد فیصل فانی (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ پیراگون سٹی لاہور
، پاکستان)
ارشاد باری
تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا
کرو‘‘۔ درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے
کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن
گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے
تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے
حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔
فرمان مصطفوی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے
اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
”راعی“ کا معنی ہے چرواہا
، نگہبان، محافظ ، حاکم ، بہت الفت کرنے والا اور ”رعیت“ وہ ہے جس کی وہ حفاظت کرے
، جسے چرائے اور جس سے خوب الفت ومحبت سے پیش آئے۔ ان معانی کے لحاظ سے ”راعی“ کا
لفظ مویشی کے نگہبان ، چرواہا کسی بھی معمولی سے معمولی کام کا ذمہ دار، افسر ،
حکومت کی انتظامیہ ، عدلیہ ، مقننہ ، وزیراعظم ، صدرمملکت ، بادشاہ ، خلیفہ سب کو
عام ہے اور ان کے ماتحت ان کے دائرہ اختیارتک کے لوگ ان کی رعایا ہیں۔ ساتھ ہی یہ
معنی اس بات کا ذہن دے رہے ہیں کہ راعی ایسا شخص ہونا چاہئے جو اپنی رعایا کی نگہبانی بڑی شفقت ومحبت کے ساتھ کرے۔ احادیث نبوی میں بھی یہ معنی
لغوی کے عموم کی رعایت کی گئی ہے اور چھوٹے بڑے ہرطرح کے ذمہ دار پر اس لفظ کا
اطلاق کیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی
ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
بادشاہ لوگوں
کا راعی ہے تو اس سے اس کے زیر نگرانی اشخاص ورعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ آدمی اپنے گھروالوں کا راعی ہے اس سے ان کے بارے میں پرسش ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بال بچوں کی نگراں وراعی ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھ
گچھ ہوگی اور غلام یا نوکر خادم اپنے آقا کے مال واسباب کا نگہبان ہے۔ اس سے اس کا
محاسبہ ہوگا، تو باخبر رہو ، تم میں کا ہر شخص راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی
رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری، ص1057)
”امام“ کا لفظ صدرمملکت ،
سلطان ، خلیفہ سب کو عام ہے اس حدیث پاک میں مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
نے بادشاہ ، وزیر، عورت، نوکر چاکر، غلام سب کو اپنے اپنے دائرہ اختیار کا ذمہ دار قراردیا ہے اور ساتھ ہی
اس امر سے بھی آگاہ فرمادیا ہے کہ کل میدان قیامت میں سب کو خدائے جبار وقہار کے
حضور جواب دہ ہونا ہوگا، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ پھر ہر شخص کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے ،
کیوں کہ اللہ عزوجل سب کے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور وہ سب کی جزا وسزا کا مالک ہے۔
صحابی رسول حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض وفات میںبصرہ کا حاکم عبیداللہ
بن زیاد ان کی عیادت کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا : ”میں تجھ سے ایک حدیث بیان
کرناچاہتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں
کہ اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی
نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہ پائے گا۔ (صحیح البخاری 10582) دوسری روایت میں
فرمانِ نبوت کے الفاظ یہ ہیں”اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور
وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس
پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)”
رعایا کا غدار“ وہ
ہے جو ان کے حقوق کی نگہبانی نہ کرے، اور ان کے دشمنوں سے انہیں نہ بچائے ۔ اس کے
ساتھ عدل وانصاف نہ کرے ، یا اپنے اور پرائے میں امتیاز کرے، جب کہ حاکم کی ایک
بہت بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے پرائے امیر ، غریب سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے۔
قرآن حکیم میں اس تعلق سے یہ واضح ہدایت ہے: ”اور تم کوکسی قوم کی عداوت اس پر نہ
ابھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ رعایا کی حفاظت
وخیر خواہی میں ان کے دین ، جان ، مال ، عقل ، نسب وغیرہ حقوق کثیرہ کی حفاظت
ونگہبانی شامل ہے جس کی ذمے داری براہ راست ان کے راعی وحاکم کے سرہی عائدہوتی ہے
اور اس کے لئے نظام عدل کا قیام، اپنے پرائے ، امیروغریب سب کے ساتھ
مساوی سلوک، اپنے فرائض میں دھوکہ ، فریب ، بدعہدی ، خیانت سے
احتراز ، اعلیٰ ظرفی ، خیرخواہی ، رفق ولطف اور حلم بردباری ضروری ہے۔