ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکمران اور رعایا  کے باہمی تعلقات کا بہتر اور خوش گوار ہونا ضروری ہے اچھے اخلاق کے زمرہ میں عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلم حکمران کی عزت کرے اور رعایا کو چاہئے کے ہر جائز امر میں اپنے حکمران کی اطاعت کرے جائز امر سے مراد کہ جو شریعت کے خلاف نہ ہو اور اگر حکمران کی شکل وصورت اچھی نہ ہو اور پستہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہو پھر بھی عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمران کا احترام کرے جب تک حاکم کفر بواح کا ارتکاب نہ کر لے کفر بواح میں علماء اکرام کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد واضح کفر ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد فسق و فجور ہے اور جب حکمران اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جیسے زنا کرنا شراب پینا وغیرہ میں مبتلا ہونا جب یہ چیز حاکم کی مشہور ہو جائے تو اب عوام پر اس حکمران کی اطاعت واجب نہیں ہے امیر کی اطاعت ضروری ہے اس پر کثیر احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہے

حدیث مبارکہ: ترجمہ: کریم آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے امیر کی اطاعت اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیری کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ( بخاری شریف جلد نمبر 2 کتاب الاحکام صفحہ نمبر 601) اس حدیثِ پاک سے یہ پتا چلا کے امیر کی اطاعت ضروری ہے

حدیث مبارکہ: ترجمہ: کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی کان کٹا کالا غلام حاکم و امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم اس کی بات سنو اور حکم مانو

اس حدیثِ پاک سے ہمیں 3 چیزیں سیکھنے کو ملی : 1:حکمران کی شکل اچھی نہ ہو تو بھی اس کی اطاعت کرنی چاہیے ۔ 2: اس کی جسامت میں کوئی عیب ہو تو بھی اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔3: اگر وہ حاکم قرآن کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کی سننی چاہیے اور اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور اگر فیصلہ قرآن کے مطابق نہ ہو تو اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان حکمران کی اطاعت کرے جو قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں اللہ ہمیں ایسا حکمران نصیب فرمائے