اللہ تعالٰی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے زمہ عوام کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے بروز حشر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں حکمران  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا ۔

(1) رعایا کی خبر گیری رکھنا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک کوڑا خانہ کے پاس سے گزرے تو وہاں رک گئےرفقا کو اس کی بدبو سے اذیت ہوئی تو آپ نے فرمایا یہ تمہاری دنیا ہے جس کی تم حرص و لالچ کرنے اور اسی کے گن گاتے ہو ۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص (117)

(2) رعایا کے ساتھ محبت کرنا۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ مسکینوں کے ساتھ محبت فرماتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرمانے حتی کہ اس وجہ سے آپ کے جسم میں کمزوری پیدا ہوگئ آپ رضی آللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ کھجوروں کا شیرہ تیار کر کے کھانے کے ساتھ آپ کو پلایا کرتی تھیں ( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص (525)

(3) رعایا کی خیر خواہی کرنا۔ حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں مجھے کسی مسلمان گھرانے کی مہینہ پھر یا ہفتہ بھر یا جتنے دن اللہ عزوجل چاہے اتنے دن کفالت کرنا نفلی حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کو الله عز وجل کی رضا کے لیے ایک ذانق کے برابر مال ہدیہ کروں یہ مجھے اللہ عزوجل کے راستے میں دنیا خرچ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔( اللہ والوں کی باتیں جلد 1 ص 575)

(4) دعایا کو دھوکا دینے والے حکم کا انجام۔حضرت سیدنا ابو یعلیٰ معقل بن یسار سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو الله اس پر جنت حرام فرما دے گا (فیضان ریاض الصالحین ج 5 ص 603)


ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکمران اور رعایا  کے باہمی تعلقات کا بہتر اور خوش گوار ہونا ضروری ہے اچھے اخلاق کے زمرہ میں عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلم حکمران کی عزت کرے اور رعایا کو چاہئے کے ہر جائز امر میں اپنے حکمران کی اطاعت کرے جائز امر سے مراد کہ جو شریعت کے خلاف نہ ہو اور اگر حکمران کی شکل وصورت اچھی نہ ہو اور پستہ طبقہ سے تعلق رکھتا ہو پھر بھی عوام پر لازم ہے کہ وہ اپنے حکمران کا احترام کرے جب تک حاکم کفر بواح کا ارتکاب نہ کر لے کفر بواح میں علماء اکرام کا اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد واضح کفر ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد فسق و فجور ہے اور جب حکمران اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو جیسے زنا کرنا شراب پینا وغیرہ میں مبتلا ہونا جب یہ چیز حاکم کی مشہور ہو جائے تو اب عوام پر اس حکمران کی اطاعت واجب نہیں ہے امیر کی اطاعت ضروری ہے اس پر کثیر احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہے

حدیث مبارکہ: ترجمہ: کریم آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے امیر کی اطاعت اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیری کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ( بخاری شریف جلد نمبر 2 کتاب الاحکام صفحہ نمبر 601) اس حدیثِ پاک سے یہ پتا چلا کے امیر کی اطاعت ضروری ہے

حدیث مبارکہ: ترجمہ: کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم پر کوئی کان کٹا کالا غلام حاکم و امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم اس کی بات سنو اور حکم مانو

اس حدیثِ پاک سے ہمیں 3 چیزیں سیکھنے کو ملی : 1:حکمران کی شکل اچھی نہ ہو تو بھی اس کی اطاعت کرنی چاہیے ۔ 2: اس کی جسامت میں کوئی عیب ہو تو بھی اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔3: اگر وہ حاکم قرآن کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کی سننی چاہیے اور اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور اگر فیصلہ قرآن کے مطابق نہ ہو تو اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان حکمران کی اطاعت کرے جو قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں اللہ ہمیں ایسا حکمران نصیب فرمائے


اللہ تعالی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ تواضع و انکساری:مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔

2)چغلی پر عمل سے اجتناب : رعایا کا دوسرا حق یہ ہے کہ حاکم لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی باتوں پر کان نہ دھرے خاص طور پر فاسق اور خود غرض لوگوں کی باتوں پر یقین نہ کرے کیونکہ اس کا نتیجہ فتنہ فساد اور افسوس اور ندامت ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔

3)اجتماعی عدل کا نفاذ : حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکم کا عد ل و انصاف ہر نیک اور بد کو حاصل ہو نا چاہیے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایمان لانے کے بعد سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ انسان لوگوں کے ساتھ محبت کرے اور ہر اچھے اور برے آدمی کے ساتھ بھلائی کرے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ : رعایا کا پانچواں حق یہ ہے کہ حاکم وقت حکومت کے زور پر عام مسلمان کے چار دیواری کے حق کی خلاف ورزی نہ کرے اور اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہ ہو۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے تو تین مرتبہ آواز دے کر اجازت طلب کرتے اور اگر اجازت نہ ملتی تو وآپس چلے جاتے اور اس بات کی وجہ سے ناراض نہیں ہوتے تھے

4(رعایا پر شفقت کرنے والا حاکم ہو.- حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے خلیفہ وہ ہے جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرے اور رعایا پر اس طرح شفقت کرے جس طرح آدمی اپنے اہل و عیال پر شفقت کرتا ہے۔ (کتاب الاموال لابی عید (6)

5)اسلامی حاکم میں امانتداری کی خوبی کا ہونا:۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو ہم کسی کام کا عامل بنائیں اور اس پر جو روزی ( تنخواہ ) اسے دیں تو جو اس کے بعد اور لے گا تو وہ خیانت ہے ( ابوداؤد کتاب القضاء ) اسلام کے مطابق حاکم کے لئے دیانت داری اس لئے بھی ضروری ہے کہ جب تک حاکم خود سادگی اور ایمانداری کا عملا ثبوت پیش نہیں کرے گا وہ کسی طرح غریب رعایا کی خدمت کر سکتا ہے۔(مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو دس آدمیوں کا بھی امیر ہو وہ قیامت کے روز طوق پہنا کر لایا جائے گا یہاں تک کہ انصاف اسے چھڑا دے گا یا ظلم اسے ہلاک کر دے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ أَمِيرِ عَشَرَةِ إِلَّا يُؤْتَى بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ مَغْلُولَا حَتَّى يَقُلَّ عَنْهُ الْعَدْلُ أَوْ يُويقَةُ الحور ( مالقوة كتاب الامارة والقضاء)


ارشاد باری تعالی ہے :’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ درگزر: جب کسی کی غلطی کی وجہ سے حاکم ناراض ہو تو پھر اس شخص کو معاف کر دینے کی گنجائش موجود ہو تو حاکم کو چاہیے کہ ناراضگی کا اظہار کرنے کے بعد تین دن گزرنے سے پہلے اسے معاف کر دے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کو معاف کر دے تو قیامت کے دن اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے یوسف تم نے اپنے بھائیوں کو معاف کیا ، اس کی وجہ سے ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔

فرمان مصطفوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ہے:آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔

”راعی“ کا معنی ہے چرواہا ، نگہبان، محافظ ، حاکم ، بہت الفت کرنے والا اور ”رعیت“ وہ ہے جس کی وہ حفاظت کرے ، جسے چرائے اور جس سے خوب الفت ومحبت سے پیش آئے۔ ان معانی کے لحاظ سے ”راعی“ کا لفظ مویشی کے نگہبان ، چرواہا کسی بھی معمولی سے معمولی کام کا ذمہ دار، افسر ، حکومت کی انتظامیہ ، عدلیہ ، مقننہ ، وزیراعظم ، صدرمملکت ، بادشاہ ، خلیفہ سب کو عام ہے اور ان کے ماتحت ان کے دائرہ اختیارتک کے لوگ ان کی رعایا ہیں۔ ساتھ ہی یہ معنی اس بات کا ذہن دے رہے ہیں کہ راعی ایسا شخص ہونا چاہئے جو اپنی رعایا کی نگہبانی بڑی شفقت ومحبت کے ساتھ کرے۔ احادیث نبوی میں بھی یہ معنی لغوی کے عموم کی رعایت کی گئی ہے اور چھوٹے بڑے ہرطرح کے ذمہ دار پر اس لفظ کا اطلاق کیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : آگاہ ہوجاؤ! تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔

بادشاہ لوگوں کا راعی ہے تو اس سے اس کے زیر نگرانی اشخاص ورعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ آدمی اپنے گھروالوں کا راعی ہے اس سے ان کے بارے میں پرسش ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بال بچوں کی نگراں وراعی ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی اور غلام یا نوکر خادم اپنے آقا کے مال واسباب کا نگہبان ہے۔ اس سے اس کا محاسبہ ہوگا، تو باخبر رہو ، تم میں کا ہر شخص راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (صحیح البخاری، ص1057)

”امام“ کا لفظ صدرمملکت ، سلطان ، خلیفہ سب کو عام ہے اس حدیث پاک میں مصطفےٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ ، وزیر، عورت، نوکر چاکر، غلام سب کو اپنے اپنے دائرہ اختیار کا ذمہ دار قراردیا ہے اور ساتھ ہی اس امر سے بھی آگاہ فرمادیا ہے کہ کل میدان قیامت میں سب کو خدائے جبار وقہار کے حضور جواب دہ ہونا ہوگا، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ پھر ہر شخص کو اپنی ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے ، کیوں کہ اللہ عزوجل سب کے کاموں کو دیکھ رہا ہے اور وہ سب کی جزا وسزا کا مالک ہے۔ صحابی رسول حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض وفات میںبصرہ کا حاکم عبیداللہ بن زیاد ان کی عیادت کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا : ”میں تجھ سے ایک حدیث بیان کرناچاہتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبوبھی نہ پائے گا۔ (صحیح البخاری 10582) دوسری روایت میں فرمانِ نبوت کے الفاظ یہ ہیں”اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)”

رعایا کا غدار“ وہ ہے جو ان کے حقوق کی نگہبانی نہ کرے، اور ان کے دشمنوں سے انہیں نہ بچائے ۔ اس کے ساتھ عدل وانصاف نہ کرے ، یا اپنے اور پرائے میں امتیاز کرے، جب کہ حاکم کی ایک بہت بڑی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے پرائے امیر ، غریب سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے۔ قرآن حکیم میں اس تعلق سے یہ واضح ہدایت ہے: ”اور تم کوکسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے۔ رعایا کی حفاظت وخیر خواہی میں ان کے دین ، جان ، مال ، عقل ، نسب وغیرہ حقوق کثیرہ کی حفاظت ونگہبانی شامل ہے جس کی ذمے داری براہ راست ان کے راعی وحاکم کے سرہی عائدہوتی ہے اور اس کے لئے نظام عدل کا قیام، اپنے پرائے ، امیروغریب سب کے ساتھ مساوی سلوک، اپنے فرائض میں دھوکہ ، فریب ، بدعہدی ، خیانت سے احتراز ، اعلیٰ ظرفی ، خیرخواہی ، رفق ولطف اور حلم بردباری ضروری ہے۔


کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال اور ان کے درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت كعبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں۔(اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہٰذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ آئیے! رعایا کے 5 حقوق پڑھئے:

(1)رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو۔(مسلم، ص739، حدیث: 4525)

(2)رعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا۔(مراٰة المناجیح، 5/373)

(3)رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہوتو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور اس میں غلطی کرجائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔(فیضانِ فاروق اعظم،2/337)

(4)رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔(مراٰة المناجیح، 5/382)

(5)رعایا کی خبر گیری: حضرت یحییٰ بن عبداللہ اوزاعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب: دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔(اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)